پیر، 25 اگست، 2014

میں ہوں ماریہ

ہیلو فرینڈز میرا نام ماریہ احمد ہے اور میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میں کراچی کی رہنے والی ہوں۔ میرے ابّو ریلوے میں کافی اچھی پوسٹ پر جاب کرتے ہیں۔ ابّو کی مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہوتی رہتی ہے اس لیے مجھے مختلف شہروں میں رہنا پڑتا ہے۔ میری امی کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ یہ میری پہلی کہانی ہے اگر آپ لوگوں نے میری کہانی کو پسند کیا تو میں اپنی چدائیوں کی اور کہانیاں بھی آپ لوگوں کو بتاؤں گی۔ اب آتی ہوں کہانی کی طرف۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے میٹرک کے پیپر ہونے والے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اپنی طبیعت خرابی کی وجہ سے ایک ہفتہ اسکول نہیں جا سکی۔ ایک ہفتہ بعد جب میں اسکول گئی تو مجھے میرے کلاس ٹیچر سر راشد نے بہت ڈانٹا اور کہا کہ پیپر قریب ہیں اور اب جو تمہاری پڑھائی کا حرج ہوا ہے تم اس کا کیا کرو گی۔ میں کہنے لگی سر پلیز آپ کچھ میری ہیلپ کریں تو سر نے کہا کہ تم سنڈے والے دن صبح 10 بجے میرے گھر آ جاؤ میں نے کچھ اور سٹوڈنٹس کو بھی بلایا ہے تو میں تم سب تو اپنے گھر میں پڑھا دوں گا تو میں راضی ہو گئی۔ سنڈے والے دن میں نے ابّو سے کہا کہ میں سر کے گھر پڑھنے جا رہی ہوں کیوں کہ پیپر قریب ہیں اور میری پڑھائی کا بھی کافی حرج ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی بکس اٹھائی اور سر راشد کے گھر آ گئی۔ سر کا فلیٹ ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔ سر کا فلیٹ آخری فلور میں سب سے کونے والا تھا۔ میں نے سر کے فلیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر بیل بجائی تو وہ بجی نہیں شاید وہ خراب تھی میں نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔ میں اندر آ کر سر کو آواز دینے لگی مگر سر کی طرف سے جواب نہیں آیا میں مختلف کمروں سے ہوتی ہوئی ان کے بیڈ روم میں آ گئی واش روم کا دروازہ بند تھا اور اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی ابھی مجھے کھڑے ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کے واش روم کا دروازہ کھلا اور سر تولیہ سے سر کو پوچھتے ہوئے کمرے میں آ گئے۔ میں سر کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی کیوں کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا ان کا 8 انچ لمبا اور 4 انچ موٹا لنڈ فل کھڑا ہوا تھا اور وہ سر کے چلنے کی وجہ سے بری طرح سے ہل رہا تھا۔ سر نے بھی مجھے دیکھ لیا اور انہوں نے جلدی سے اپنے گرد تولیہ لپیٹ لیا ان کے کھڑے لنڈ کی وجہ سے تولیہ صحیح سے نہیں لپٹا اور وہ کھل کر گر گیا تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور میں مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی اور ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئی۔ (گھر میں اکیلے ہونے کی وجہ سے میں سیکسی فلمز شوق سے دیکھتی تھی اور میرے دل میں بھی خواہش تھی کہ مجھے بھی کوئی چودے)۔ تھوڑی دیر بعد سر کمرے سے باہر آئے تو انہوں نے قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی۔ میں سر کو دیکھ کر مسکرا دی۔ سر میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔۔۔ مجھے مسکراتا ہوا دیکھ کر وہ کچھ ریلیکس ہو گئے تھے۔ میں نے پوچھا سر باقی کے سٹوڈنٹس کہاں ہیں؟ تو سر نے کہا کہ باقی کے سٹوڈنٹس نے آنے سے منع کر دیا تھا تو مجھے تمہیں بتانا یاد نہیں رہا۔ سر کی بات سن کر میں مسکرائی اور بولی یہ تو اچھا ہوا سر اب میں آ گئی ہوں تو آپ مجھے پڑھا دیں۔ سر نے کہا کہ پھر مجھے دوبارہ دوبارہ پڑھانا پڑے گا۔ میں کہنے لگی سر اب میں آ گئی ہوں تو کچھ پڑھ کر ہی جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں مسکرانے لگی۔۔۔ اب سر بھی میرا اشارہ سمجھ گئے تھے اور وہ میرے کچھ اور قریب ہو گئے اور بولے اگر میں تمہیں سیکس کے بارے میں پڑھاؤں تو کیا تم پڑھو گی؟ میں مسکرائی اور بولی سر اگر میں منع کر دوں تو کیا آپ مجھے نہیں پڑھائیں گے؟ میری بات سن کر سر مسکرائے اور بولے اگر تم نے منع کیا تو میں زبردستی تمہیں پڑھاؤں گا۔۔۔ میں ہنسی اور بولی تو زبردستی ہی مجھے پڑھا دیں سر، یہاں آپ کو کون روکنے والا ہے؟ میرا صاف اشارہ سن کر سر سے اب زیادہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیے۔ میرے تو دل کی خواہش پوری ہو رہی تھی اس لیے میں بھی ان سے لپٹ گئی سر بے تحاشا میرے ہونٹوں کو چوم رہے تھے اور میں مزے سے بے حال ہوئی جا رہی تھی۔۔۔ میں نے ان کے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال دیے تو سر نے مجھے زور سے بھینچ لیا تو میرے ممے ان کے سینے کے ساتھ لگ کر دب گئے۔ سر مجھے کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ میری کمر پر بھی ہاتھ پھیر رہے تھے مجھے پر تو نشہ طاری تھا اور میں نے خود کو پوری طرح سے سر کے حوالے کر دیا۔ کافی دیر تک انہوں نے مجھے کسنگ کی پھر انہوں نے مجھے الگ کیا اور میرے کپڑے اتارنے لگے۔ میں تھوڑی ہی دیر میں سر کے سامنے بالکل ننگی بیٹھی تھی۔ سر میرا بے داغ اور خوبصورت جسم دیکھ کر پاگل ہو گئے۔ اس عمر میں بھی میرے ممے کافی بڑے بڑے تھے، پتلی کمر، لمبے بال اور دودھ کی طرح چمکتا ہوا سفید رنگ۔ میرے جسم کو دیکھ کر سر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انہوں نے مجھے گود میں اٹھایا اور مجھے بیڈ روم میں لے آئے اور انہوں نے مجھے بستر پر لٹا دیا اور پھر وہ میرے جسم پر ٹوٹ پڑے اور بری طرح سے میرے مموں کو چومنے اور چاٹنے لگے۔ میرے منہ سے لذت آمیز آوازیں نکلنے لگیں افففف ااہھھہ ااہھھہ افففف سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز میرے مموں کا سارا دودھ پی جائیں ااہھھہ سر یہ آپ کے لیے ہی ہیں ااہھھہ سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔ میں ان کا سر اپنے مموں پر دبانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے میری مکھن جیسی چوت پر حملہ کر دیا۔ جب انہوں نے میری چوت کو چاٹنا شروع کیا تو میں اپنے آپ کو لذت کے آسمانوں پر اڑتا ہوا محسوس کرنے لگی پھر جب انہوں نے میری چوت پر کاٹا تو میں لذت سے تڑپ تڑپ گئی پھر اچانک ہی میری چوت میں زلزلہ آ گیا اور میں جھڑ گئی اور میری چوت میں سے نکلنے والے پانی کو سر نے مزے مزے سے چاٹ لیا۔ اب میری ہمت جواب دے گئی تھی اور میں بری طرح سے سسکتے ہوئے بولی پلیز سر میرے حال پر رحم کریں اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے پلیز مجھے چود کر میری پیاس بھجا دیں۔ سر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے کپڑے اتارتے ہوئے بولے پہلے میرے لنڈ کو تو تیار کرو ماریہ ڈارلنگ۔ میں بھی مسکرائی اور بولی سر اپنے ہی بیچارے کو قید کیا ہوا ہے۔ پھر سر نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے تو ان کا لمبا اور موٹا لنڈ میرے سامنے آ گیا۔ میں بے صبری سے اٹھی اور میں نے ان کے لنڈ کو پکڑ لیا میرے ہاتھ میں آنے سے ان کے لنڈ نے جھٹکا کھایا اور وہ کچھ اور پھول گیا۔ مجھے ان کا لنڈ بہت پسند آیا تھا اور میں نے اسے پیار سے چوم لیا پھر چاروں طرف سے ان کے پورے لنڈ پر کسنگ کرنے لگی پھر میں نے اسے اپنے منہ میں لیا اور اسے قلفی کی طرح چوسنے لگی۔ سر اپنے لنڈ کو میرے منہ میں آگے پیچھے کرنے لگے تو ان کا لنڈ میرے حلق تک جانے لگا تھوڑی دیر بعد ان کے جھٹکوں میں تیزی آ گئی 5 منٹ بعد ان کے لنڈ نے جھٹکا کھایا اور ان کے لنڈ سے گرم گرم منی کی پچکاری نکل کر میرے حلق سے ٹکرائی اور پھر میرا منہ ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے بھر گیا۔ میں نے سر کے کہنے کے مطابق ساری منی کو پی لیا اس کا ذائقہ کچھ نمکین تھا جو مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے ان کا لنڈ اچھی طرح سے چاٹ کر صاف کیا اور میں پھر سے ان کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ 5 منٹ بعد ہی ان کا لنڈ پہلے کی طرح تن کر کھڑا ہوگیا۔ پھر سر نے اپنا لنڈ میرے منہ سے نکال لیا اور مجھے بیڈ پر لیٹ جانے کو کہا۔ میں نیچے لیٹ گئی تو سر نے میری ٹانگیں موڑ کر میرے پیٹ سے لگا دیں اور پھر انہوں نے 2 تکیے اٹھا کر میرے چوتڑوں کے نیچے رکھے تو میری چوت بلند ہو کر ان کے سامنے آ گئی۔ پھر سر گھٹنوں کے بل بیٹھے اور انہوں نے اپنے لنڈ کی ٹوپی میری چوت پر رکھی اور بولے ماریہ تیار ہو جاؤ میں تمہاری چوت پھاڑنے لگا ہو تو میں نے کہا سر یہ آپ کی ملکیت ہے اب آپ جو چاہے اس کے ساتھ کریں۔ سر نے جھٹکا مارا تو بمشکل ان کے لنڈ کی ٹوپی میری چوت میں گئی میری چوت کا سوراخ بہت چھوٹا تھا سر نے کافی کوشش کی مگر وہ اندر نہ گیا تو انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے باہر نکال لیا پھر انہوں نے ایک کریم کی بوتل اٹھائی پھر انہوں نے کافی ساری کریم اپنے لنڈ پر لگی اور کافی ساری کریم میری چوت میں اندر تک لگا دی پھر انہوں نے دوبارہ سے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت کے سوراخ میں فٹ کیا اور پھر انہوں نے اپنی پوری طاقت سے دھکّا مارا تو ان کا لنڈ میری چوت کی دیواروں کو بری طرح سے چیرتا ہوا جڑ تک اندر گھس گیا۔ میرے حلق سے بہت بھیانک چیخ نکلی اور میں بری طرح سے تڑپنے لگی۔۔۔ سر نے لگا تار دس بارہ جھٹکے اور مارے ان کا ہر جھٹکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا اور میرے حلق سے پہلے سے زیادہ تیز چیخ بلند ہوتی۔ ان کا فلیٹ سب سے آخر میں تھا اس لیے انہوں نے میرے چیخنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔۔۔ وہ مسلسل جھٹکے مار رہے تھے۔۔۔ اب میں نے رونا شروع کر دیا میرے رونے پر ان کو اور جوش آیا اور وہ زیادہ تیزی کے ساتھ مجھے چودنے لگے۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے بولے کیوں ماریہ میری جان، درد ہو رہا ہے؟ میں نے اقرار میں سر ہلا دیا تو سر ہنسے اور بولے برداشت کرو میری جان برداشت کرو تمہی نے تو کہا تھا کہ یہ میری ملکیت ہے اور اب میں جو چاہوں اس کے ساتھ کروں۔ یہ کہہ کر وہ زوردار جھٹکوں کے ساتھ مجھے چودنے لگے، میرا درد تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور میں اب تک 4 مرتبہ جھڑ چکی تھی۔ سر کسی جانور کی طرح مجھے چود رہے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ میرا درد ختم ہونے لگا اور اب مجھے بھی مزا آنے لگا اور میں مزے میں سسکنے لگی افففف اہھھہ اووییی میں مر گئی افففف سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز اور تیز جھٹکے ماریے سر آج پھاڑ ڈالیں میری چوت کو افففف ااہھھہ اور زور سے سر اور زور سے۔ سر ہنستے ہوئے بولے جان من کیا اب درد نہیں ہو رہا کیا؟ میں سسکتے ہوئے بولی نہیں سر آپ کے ہوتے ہوئے مجھے درد کیسے ہو سکتا ہے آج آپ نے مجھے خرید لیا سر افففف اور زور سے مجھے چودیں۔ سر زور زور سے میری چدائی کرنے لگے۔ 45 منٹ تک مسلسل جھٹکے مارنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے باہر نکالا اور آ کر میرے منہ سے لگا دیا میں نے فوراً اپنا منہ کھول دیا اب سر میرے منہ کو چودنے لگے پھر سر جھڑ گئے اور ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے میرا منہ بھر گیا جسے میں نے مزے مزے سے پی لیا۔ سر تھک کر میرے اوپر گر گے۔ میں نے خوشی کے عالم میں انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا اور انھیں چومنے لگی۔ کافی دیر تک ہم دونوں اسی طرح لیٹے رہے پھر جب میں اٹھی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ میری چوت سے نکلنے والے خون سے لال ہو گئی تھی۔ میں کہنے لگی دیکھئے سر آپ نے کیسا خون خرابہ کیا ہے۔ سر نے مجھے لپٹا لیا اور بولے میری جان اس خون خرابے سے ہی تو مزا آیا ہے۔ میں مسکرائی اور بولی ہاں سر پہلے تو مجھے بہت تکلیف ہوئی مگر پھر اس سے بھی زیادہ مزا آیا اور اب میں یہ مزا دوبارہ لینا چاہتی ہوں۔ سر مسکرائے اور بولے کیوں نہیں میری جان مگر پہلے میں یہ مزا تمہاری گانڈ کو دوں گا اس کے بعد چوت کا نمبر آئے گا، کیا تم تیار ہو اپنی گانڈ مروانے کے لیے؟ میں مسکرائی اور بولی سر آپ نے مجھے اتنا مزا دیا ہے کے میں آپ کو منع کر ہی نہیں سکتی ویسے بھی اب میں آپ کی غلام ہوں، آپ جو چاہیں میرے ساتھ کریں میں بولنے والی کون ہوتی ہوں۔ میری بات سن کر سر نے مجھے چوم لیا اتنی دیر میں سر کا لنڈ پھر سے کھڑا ہوگیا تھا پھر میں سر کے کہنے پر ڈوگی سٹائل میں کھڑی ہوگی۔ سر میرے پیچھے آئے اور انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں فٹ کیا اور بولے ماریہ ڈارلنگ بہت درد ہو گا۔ میں مسکرائی اور بولی سر آپ اس کی پروا نہ کریں۔ اب آپ نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا لنڈ میری گانڈ میں گھسانا ہے۔ چاہے میں چیخوں یا چلّاؤں آپ میری پرواہ نہیں کریے گا۔ میری بات سن کر سر نے اپنی پوری طاقت سے جھٹکا مارا اور ان کا پورا کا پورا لنڈ میری گانڈ کو پھاڑتا ہوا اندر گھس گیا میں بہت زور سے چیخی اور درد کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ سر نے جب دوسرا جھٹکا مارا تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ سر بری طرح جھٹکے مار کر میری گانڈ مارنے لگے۔ میں بری طرح سے چیخ رہی تھی اور درد کے مارے اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی۔ سر نے میری حالت دیکھی تو کہا، ماریہ اگر درد بہت ہو رہا ہے تو میں آہستہ سے گانڈ ماروں؟ میں بمشکل بولی، اُووووووفففف نہیں سر آپ میرے چیخنے کی پرواہ نے کریں اور اپنی پوری طاقت لگا کر جھٹکے ماریں، ابھی آپ کا لنڈ میری گانڈ کے لیے نیا ہے تو درد ہو رہا ہے کچھ دیر بعد نہیں ہو گا۔ سر نے میری بات سنی اور بولے، اگر یہ بات ہے تو پھر برداشت کرو میرے زوردار جھٹکوں کو۔ یہ کہہ کر سر اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگے۔ ابھی سر کو گانڈ مارتے ہوئے 10 منٹ ہی ہوئے تھے کہ باہر کے دروازے کی بیل بجی۔ سر نے ایک گالی بکی اور کہنے لگے، اس وقت کون مادر چود اپنی ماں چدوانے آ گیا ہے بہن چود نے سارا مزا خراب کر دیا۔ اتنے میں بیل پھر بجی تو سر نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکالا اور ایک تولیہ اپنے گرد لپیٹا اور دروازہ کھولنے چلے گئے۔ جب کہ میں اسی طرح ننگی ڈوگی سٹائل میں پڑی رہی۔ کچھ دیر بعد جب سر ایک اور آدمی کے ساتھ اندر آئے تو میں گھبرا گئی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ آدمی بہت غور سے مجھے دیکھنے لگا۔ سر مجھ سے بولے ماریہ ڈارلنگ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میرا بہت اچھا دوست ہے کامران اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو یہ بھی میرے ساتھ مل کر تمہیں چود لے۔ میں مسکرائی اور بولی سر اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے آپ نے میری اتنی زبردست چدائی کر کے مجھے اپنا غلام بنا لیا ہے اور غلام اپنے مالک کو منع نہیں کر سکتا تو میں آپ کو کس طرح منع کر سکتی ہوں؟ کامران انکل آپ کے دوست ہیں تو میں ان کی بھی غلام ہوں اور آپ دونوں میرے آقا۔۔۔ اب آپ دونوں جس طرح چاہیں مجھے چودیں میں منع کرنے والی کون ہوتی ہوں۔ میری بات سن کر سر مسکرا دیے اور بولے ماریہ میری جان مجھے تمہاری بات سے بہت خوشی ہوئی ہے اور اب تم دیکھنا کہ ہم دونوں کس کس طرح تمہاری چدائی کرتے ہیں۔ پھر کامران انکل نے بھی اپنے کپڑے اتار دیے۔۔۔ کامران انکل کا لنڈ بھی 8 انچ لمبا اور 4 انچ موٹا تھا۔ میں سر راشد کے کہنے پر دوبارہ سے ڈوگی پوزیشن میں ہو گئی۔ پھر سر راشد واپس آ کر میری گانڈ مارنے لگے جب کہ کامران انکل نے آ کر اپنا لنڈ میرے منہ سے لگا دیا اور میں مزے سے کامران انکل کا لنڈ چوسنے لگی۔ سر راشد 40 منٹ تک میری گانڈ مارتے رہے پھر انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکال کر میرے منہ سے لگا دیا جس کو میں نے منہ میں لے لیا تھوڑی دیر میں ہی ان کے لنڈ سے منی کا فوارہ نکل پڑا اور میرا منہ ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے بھرنے لگا جس کو میں مزے سے پینے لگی پھر میں نے ساری منی پی کر ان کا لنڈ چاٹ کر اچھی طرح صاف کیا۔ سر جآ کر صوفے پر بیٹھ گئے پھر کامران انکل نے ڈوگی سٹائل میں ہی اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور زور دار جھٹکوں سے میری چدائی کرنے لگے جب کہ میں مزے سے سسکیاں بھرنے لگی۔ افففف ااہھھہ اووییی افففف افففف افففف کامران انکل اور زور سے جھٹکے مارے ااہھھہ افففف مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز اور زور سے جھٹکے ماریں اور زور سے اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مار کر میری چدائی کریں۔ میری باتوں سے کامران انکل کا جوش اور بڑھ گیا اور وہ اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگے انہوں نے 30 منٹ تک میری چوت ماری اور اس دوران میں 4 مرتبہ جھڑی پھر انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکال کر میری گانڈ میں ڈالا اور زوردار جھٹکوں سے میری گانڈ مارنے لگے۔ 25 منٹ تک میری گانڈ مارنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکال کر میری چوت میں ڈالا اور میری چوت کو چودنے لگے۔ پھر 35 منٹ تک میری چوت چودنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا۔ کامران انکل ابھی تک نہیں جھڑے تھے جبکہ میری حالت بری ہوگئی تھی اور میں 22 مرتبہ جھڑ چکی تھی۔ سر راشد ہنستے ہوئے بولے ابے کامران گانڈو اب تو معاف کردے بچی کو تو نے تو اس کو چود چود کر اس کا کباڑا کر دیا ہے۔ میں سسکیاں بھرتے ہوئے بولی، نہیں سر: کامران انکل کو نہ روکیں مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔ کامران انکل بھی ہنسے اور بولے، جان من یہ تو شروعات ہے ابھی تم دیکھتی جاؤ میں کس کس طرح تمہاری چدائی کرتا ہوں۔ میں سسکیاں لے کر بولی، اُوووووووفففف کامران انکل تو آپ کو منع کس نے کیا ہے چودیں اور چودیں مجھے خوب چودیں چود چود کر میری چوت اور گانڈ کو پھاڑ ڈالیں۔ میری بات سن کر کامران انکل مسکرائے اور وہ اور تیزی سے جھٹکے مار کر مجھے چودنے لگے۔ کامران انکل نے تقریباً 50 منٹ تک اور میری چوت اور گانڈ ماری تب کہیں جآ کر وہ فارغ ہوئے۔ اس چدائی سے میرا جود جود حل گیا تھا اور میں لیٹ کر لمبی لمبی سنسے لینے لگی۔ 15 منٹ آرام کرنے کے بعد ان دونوں نے مجھے ایک ساتھ چودنے کا فیصلہ کیا۔ کامران انکل نے مجھے گود میں اٹھا کر اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور سر راشد نے پیچھے سے آ کر اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ جھٹکے مر کر مجھے چودنے لگے۔ انتے موٹے موٹے لنڈ ایک ساتھ میری چوت اور گانڈ میں جارہے تھے جس سے مجھے بہت زیادہ مزا مل رہا تھا اور ان دونوں کی جھٹکے مرنے کی رفتار اتنی تیز تھی کے میرے حلق سے نہ چاہتے ہوئے بھی چیخیں نکل رہی تھی۔ پھر شام 7 بجے تک ان دونوں نے چود چود کر میری چوت اور گانڈ کو سوجا دیا۔ ان دونوں نے دل کھول کر میری چدائی کی تھی۔ میری چوت اور گانڈ سوجھ کر پھول گیں تھی اور میں اتنی زبردست چدائی کے بعد سہی طرح سے چل بھی نہیں پرہی تھی۔ میں سر سے کہنے لگی، سر اب میں گھر کیسے جاؤں گی اور ابّو کو تو میری حالت دیکھ کر شک ہوجائے گا۔ سر راشد کہنے لگے، گھبراؤ نہیں میں تمہیں گھر چھوڑنے جاؤں گا اور میں سب سنبھال لوں گا۔ کامران انکل تو چلے گئے جب کہ سر راشد اپنی کار میں مجھے گھر چھوڑنے آئے۔ گھر پہنچے تو سر راشد کہنے لگے، ماریہ میں بہت شرمندہ ہوں کے ہم دونوں نے چود چود کر تمہارا یہ حال کردیا ہے۔ میں مسکرائی اور بولی سر آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے جو ہوا اچھا ہوا بلکہ تو مجھے تو بہت مزا آیا ہے۔ سر مسکرائے اور بولے جان من تم تو بہت خطرناک لڑکی ہو۔ پھر سر مجھے سہارا دے کر گیٹ تک لے اور دروازے کی بیل بجائی۔ ابّو نے میری یہ حالت دیکھی تو پوچھنے لگے کے کیا ہوا؟ سر راشد نے ابّو سے بہانہ بنایا کہ میں سیڑھیوں سے پھسل گئی تھی اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ سر راشد کی بات سن کر ابّو کو ذرا بھی شک نہ ہوا کہ ان کی بیٹی کیا گل کھلا کر آئی ہے۔


میری حالت بہت خراب تھی اس لیے میں 4 دنوں تک اسکول نہیں جا سکی۔ پانچویں دن جب میں اسکول پہنچی تو سر راشد مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ہاف ٹائم کے بعد میرا اسٹاف روم میں جانا ہوا تو وہاں صرف سر راشد تھے۔ سر نے مجھے پکڑ کر اپنے آپ سے لپٹا لیا اور مجھے چمٹے ہوئے بولے، ماریہ ڈارلنگ ابھی میرا تمہیں چود کر دل نہیں بھرا ہے میں اور تمہیں چودنا چاہتا ہوں۔ میں مسکرائی اور بولی، سر! آپ نے کامران انکل کے ساتھ مل جو کباڑا کیا تھا اس کا کیا؟ سر نے مجھے زور سے بھینچا اور بولے، تم خود تو کہ رہی تھی کے تم میری غلام ہو۔ میں مسکرائی اور بولی، نہیں سر میں تو مذاق کر رہی تھی بلکہ میں تو خود آپ سے اور کامران انکل سے اور چدوانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانی جاری رہے گی۔ آپ لوگوں کے کمنٹس اور ای میلز کا انتظار رہے گا۔

دوستو۔ میرا نام ندیم ہے اور میں کراچی کا رہنے والا ہوں۔ یہ کہانی میری بڑی بہن ثانیہ کی ہے۔ ایک دن میں نے اسے ہل ٹاپ ہوٹل سے ایک لڑکے کے ساتھ نکلتے دیکھ لیا اور میں جانتا تھا کہ وہ ہوٹل صرف چدائی کے کام کے لئے بدنام تھا۔ وہاں پر تو میں کچھ نہیں بولا لیکن گھر آ کر میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے پوچھا تو اس نے جو داستان سنائی وہ آپ سب کے لئے پیش کر رہا ہوں۔

ثانیہ کی آپ بیتی ثانیہ کی زبانی:
یہ تب کی بات ہے جب پاپا کا ٹرانسفر سکھر ہو گیا اور ممی بھی ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھیں اور میرے گریجویشن کا سیکنڈ ایئر ہونے کی وجہ سے مجھے خالہ کے گھر چھوڑ دیا گیا تھا تا کہ میں گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے سے ہی کمپلیٹ کر لوں۔ تب ہمارے کزن عمران نے مجھ سے کافی فلرٹ کیا اور مجھے اپنے پیار کے جال میں پھنسا لیا اور میں بھی اس کو پسند کرنے لگی تھی۔ تب عمران نے مجھے چودنے کی کافی کوششیں کیں اور کچھ مہینے تو یونہی نکل گئے لیکن آخر کار ایک دن اس نے مجھے چود ہی ڈالا لیکن اس پہلی چدائی میں سارا قصور اس کا ہی نہیں بلکہ دراصل میں خود بھی چدوانا چاہتی تھی لہٰذا اسے روک نہیں پائی اور اس پہلی چدائی کے بعد اس نے مجھے کئی بار چودا لیکن گھر پر کسی نہ کسی کے موجود ہونے کی وجہ سے ہم لوگ ایک مہینے سے چدائی نہیں کر پا رہے تھے۔ آخر ایک روز اس نے مجھ سے کہا۔۔۔
عمران: ثانیہ! یہاں ہم لوگ کھل کے پیار نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں کسی نہ کسی کے آنے کا ڈر رہتا ہے۔ میں نے ایک جگہ کا انتظام کر کے رکھا ہے، جہاں کوئی نہیں آئے گا۔ تم کل دوپہر میں تیار ہو کے بس اسٹاپ پر ملنا، میں تم کو وہاں سے پک کر کے اس جگہ لے جاؤں گا۔
ثانیہ: لیکن کہاں عمران؟ باہر کوئی دیکھ لے گا تو اچّھا نہیں ہے، جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، یہیں ٹھیک ہے۔
عمران: ارے ایک بار تم کھلی ہوا میں پیار کر کے تو دیکھو، بہت مزا آئے گا۔
مجھے ڈر تو لگ رہا تھا لیکن عمران کے بے حد اصرار پر اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بادل نخواستہ اگلے روز میں تیار ہو کے عمران کے بتائے ہوئے ٹائم پر اس بس اسٹاپ پر پہنچ گئی۔ وہاں عمران پہلے سے موجود تھا۔ میں اس کی کار میں جا کر چپ چاپ بیٹھ گئی۔ وہ مجھے کار میں بٹھا کر کار شہر سے باہر لے جانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم جا کہاں رہے ہیں لیکن اس نے مجھے خاموش کروا دیا کہ دیکھتی جاؤ، ایسی محفوظ اور پر سکون جگہ ہے کہ ہم اطمینان سے انجوائے کریں گے۔
آخر اس نے کار ایک فارم ہاؤس کے اندر لے جا کر روک دی۔
ثانیہ: لیکن عمران یہ کیا جگہ ہے؟
عمران: تم پہلے یہاں نہیں آئی ہو۔ یہ میرے ایک دوست کا فارم ہاؤس ہے۔ چابی میرے فرینڈ کے پاس تھی۔
ثانیہ: مگر اس دوست سے تم نے کچھ کہا تو نہیں۔ اگر کہیں کوئی آ گیا تو۔
عمران: ارے یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ اور ویسے بھی ابھی تو سب آفس میں ہوں گے۔ رات کو ہی واپس آئیں گے، میں نے بہانہ بنا کر دوست سے چابی لے لی ہے۔ یہاں پر ہم ہر طریقے سے پیار کریں گے۔ یہ کہہ کر عمران نے مجھے کسنگ کرنا شروع کر دیا اور وہیں کھلی فضا میں ہی آہستہ آہستہ میرے سارے کپڑے اتار کر مجھے ننگی کر دیا۔ اور پھر خود بھی ننگا گیا۔ اس نے مجھے نیچے بٹھا دیا اور اپنا لنڈ کو میرے منہ میں دے دیا۔ میں اس کے لنڈ کو چوس چوس کے کھڑا کیا تو وہ مجھے گود میں اٹھا کے بیڈ روم میں لے گیا اور ابھی اس نے مجھے چودنا بھی شروع نہیں کیا تھا کہ اس فارم ہاؤس کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔ میں ڈر گئی اور پوچھا۔
ثانیہ: عمران، دروازہ بند تو کیا ہے نا؟
عمران: دروازہ بند ہے لیکن دوسری چابی میرے دوست کے پاس بھی ہے۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ کہتی، بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور عمران کے چار دوست کمرے میں داخل ہو گئے۔ ان میں سے رضوان اور سلیم کو تو میں نام سے جانتی تھی جب کہ دو لڑکے اور تھے جن کا نام میں نہیں جانتی تھی لیکن یہ معلوم تھا کہ وہ عمران کے دوست تھے۔ ان لوگوں کے آتے ہی میں کپڑے تو نہیں پہن پائی لیکن شرم کے مارے نظریں نیچی کر کے فوراً بیڈ شیٹ کھینچ اپنے اوپر اوڑھ لی۔ وہ سب اندر آنے لگے تو میں نے عمران سے کہا۔
ثانیہ: عمران! انہیں باہر جانے کو کہو پلیز۔۔۔ میں تب تک کپڑے پہن لیتی ہوں۔
عمران: ارے یار وہ صرف کمرے کے اندر آنے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ تمہارے اندر ڈالنے کے لئے آئے ہیں۔
یہ سب کر وہ چاروں ہنس پڑے اور میں خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگی۔ رضوان نے عمران سے کہا کہ تونے تو بہت ہی اچّھا پلان بنایا ہے یار اس کو چدوانے کا۔ پھر وہ سلیم سے کہنے لگا کہ میں جب بھی عمران کے گھر جاتا تھا اور اس کی کزن کو دیکھتا تھا، بس اس کو ادھر ہی چودنے کا دل کرتا لیکن ڈر تھا سالی کہیں شور نہ مچا دے۔ اس لئے میں نے عمران کے ساتھ مل کر اس کو چودنے کا پلان بنایا اور دو مہینے بعد کہیں جا کے یہ سالی ہاتھ آئی ہے۔ دیکھ تو اس کی چکنی گانڈ تو دیکھ۔ یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ کے پاس آ گیا اور اچانک میری لپیٹی ہوئی بیڈ شیٹ میرے بدن پر سے کھینچ کر مجھے ننگی کرنے لگا۔ میں رونے لگی۔
ثانیہ: عمران، یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ کیا بول رہا ہے؟ یہ مذاق کر رہے ہیں نا!
عمران: نہیں یہ سچ کہہ رہا ہے اور مذاق نہیں کر رہا۔ تم بھی اب شرافت سے مان جاؤ اور انجوائے کرو بے بی۔
ثانیہ: تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح اپنی بہن کو دوسرے لوگوں کے بیچ میں بے عزت کر رہے ہو۔
عمران: کیا بے عزتی یار! ارے یار تو لڑکی ہے۔۔۔ تیری چوت میں ایک لنڈ جائے یا دس کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ ویسے ہم سب دوست مل بانٹ کے کھاتے ہیں۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے زبردستی میری چادر کھینچ لی اور مجھے سب کے بیچ میں ننگا کر دیا اور سلیم کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے کہنے لگا کہ ثانیہ! تو تو میری کزن ہے۔۔۔ ہم لوگوں نے تو اس کے سامنے بلکہ اس کے ساتھ مل کر اس کی سگی بہن کو اسی کمرے میں پورا پورا دن چودا ہے اور تو اور رضوان نے تو تیری چوت کے لئے پورے ایک ہفتے سلیمہ آنٹی کو چدوایا ہے مجھ سے۔
یہ سن کے مجھے ایک دم شاک سا لگا کہ کوئی بھائی اپنی سگی بہن کو خود بھی چودے اور دوستوں سے بھی چدوائے یا اور دوسری بات سن کر تو میں بیہوش سی ہو گئی کہ رضوان نے اپنی سگی ماں سلیمہ آنٹی کو ہی چدوا ڈالا۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ آواز آئی۔۔۔
رضوان: ارے اپنی بھی تو بتا کہ تیری سگی بہن کو بھی تو یہاں پر ہی چودا ہے ہم سب نے اور سن ثانیہ، اپنی سگی بہن کی سیل بھی عمران نے خود ہی توڑی تھی اور آج بھی جب کہ اس کی شادی ہو چلی ہے، جب بھی وہ گھر آتی ہے ہم سب سے ایک بار تو ضرور چدتی ہے۔
عمران: تجھے ہم لوگ ہر طرح سے مزا دیں گے اور تجھے بھی اگر کسی خاص پوزیشن میں چدوانا ہو تو بول ہم لوگ ویسے بھی کریں گے۔
یہ کہہ کے اس نے مجھے پلنگ پر دھکیل دیا اور اپنے دوستوں سے کہا کہ جسے جو کرنا ہے کرو۔۔۔
پھر کیا تھا۔۔۔ اس کے سب دوست مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کوئی دس بارہ کتے کتیاکے پیچھے پڑتے ہیں۔۔۔ کوئی میرے بوبس پکڑ کے کھینچ رہا تھا تو کوئی میری گانڈ دبا رہا تھا اور کوئی اس میں انگلی ڈال رہا تھا اور ایک آگے بیٹھ کے میری چوت سونگھ رہا تھا۔
ثانیہ: عمران، مجھے بچاؤ۔
عمران: میں بھی چودوں گا مگر سب کے بعد۔۔۔۔ تجھے چوت چٹوانے میں اور چودنے میں بہت مزا آتا ہے نا! آج تجھے ہر طرح سے مزا دیں گے اگر تم ہمارا ساتھ دو گے تو تم کو بھی مزا ملے گا نہیں تو کتیا کی طرح رہوگی اور جس کو جیسا چاہیے ویسا چودیں گے۔
تب تک سلیم نے اپنا لنڈ میرے منہ کے سامنے کر کے چاٹنے کو کہا۔ میں نے کہا کہ میں نے کبھی کسی کا لنڈ منہ میں نہیں لیا تو سب ہنسنے لگے اور بولے کہ منہ میں لے رنڈی سالی میں نے تھوڑا سا نا نا کیا تو سلیم کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے ایک زوردار تھپڑ میرے گالوں پر ٹکا دیا ۔۔۔ میں اس کےتھپڑ کی تکلیف سے ایک طرف گری تو اس نے زور سے ایک لات میری گانڈ پر ماری اور میں پیچھے پلٹ کر کمر کے بل گر پڑی، جیسے ہی میں گری اس نے رضوان سے کہا، سالی کا منہ پکڑ کے رکھ، میں اس سالی کو اپنا گرم گرم پیشاب پلاتا ہوں۔
رضوان اور اس کے دو دوست جلدی سے آگے آئے۔ ایک نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے اور دوسرے نے میری دونوں ٹانگیں اور رضوان نے میرے بال پکڑ کے میرا منہ کھولا، جیسے ہی میرا منہ کھلا سلیم میرے منہ پر پیشاب کرنے لگا، اس کی دھار سیدھی میرے منہ کے اندر پڑنے لگی، میں جتنا ہلنے کی کوشش کرتے سب لوگ اتنا ہی ہنستے۔۔۔ پیشاب میرے ہلنے کی وجہ سے میری آنکھوں، کانوں اور ناک میں بھی گیا۔۔۔ میرا پورا گلا پیشاب کی وجہ سے جلنے لگا۔ ابھی اس کا پیشاب ختم ہی ہوا تھا کہ عمران بھی اپنا لنڈ نکال کے میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔
رضوان: ابے ایگریمنٹ کے حساب سے جب تک ہم لوگ تیری بہن کو نہ چود لیں تب تک تو کچھ نہیں کر سکتا۔
عمران: یار میں کچھ نہیں کر رہا، صرف اس کو اپنا پیشاب پلا رہا ہوں۔
اس وقت مجھ کو میری غلطی کا احساس ہوا کہ میں بری طرح پھنس چکی ہوں۔ عمران میرے اوپر خوب لنڈ ہلا ہلا کے پیشاب کے اس کے پیشاب کرنے کے بعد ایک لڑکا بولنے لگا کہ یہ مادرچود سالی تو ایک دم گندی ہو گئی ہے اس کو نہلا کے عطر لگا کے ایک رنڈی کی طرح تیار کرو پھر مزا آئے گا۔ پھر رضوان نے مجھے گود میں اٹھایا اور زبردستی مجھ کو باتھ روم میں لے گیا اور مجھے موتنے کے لئے کہا۔ پہلی بار میں لڑکے لوگ کے سامنے موت رہی تھی اور سب لوگ غور رہے تھے۔ سب سے زیادہ مزا تو سلیم لے رہا تھا۔ میں موت کے جیسے کھڑی ہونے گئی رضوان کہیں سے ایک پائپ لے آیا۔ ایک لڑکے نے پائپ نول میں لگا کے مجھ پر پانی مارنے لگا۔ ٣ سے ٤ منٹ پانی مارنے کے بعد رضوان نے پائپ زبردستی میری گانڈ میں ڈال کے پانی چلو کر دیا میری گانڈ میں پانی جانے کی وجہ سے گدگدی بھی ہو ر ہی تھی اور درد بھی ہو ر ہ تھا۔
رضوان: یہ رنڈی تو اندر سے بھی گندی ہو گئی ہوگی اس لئے اس کو اندر سے بھی صاف کر دیتے ہیں۔
میں سمجھ نہیں سکی وہ کیا بول رہا ہے اس کے جو دوست نے مجھے پکڑا تھا زبردستی جانور کی طرح سے چار ہاتھ پاؤں پر مجھے بٹھا دیا میں اٹھنے لگی تو اور دوسرے سب لڑکے زبردستے مجھے پکڑ کے ایک کتیا کی طرح کردے۔ رضوان نے اب پیچھے سے پائپ میرے چوت میں ڈال کے نال ایک دم زور سے چلو کر دیا نول چلو ہوتے ہی مجھے یکدم زور سے پائیں ہونے لگا میں سب سے ہاتھ چودا کے بھاگنے کوشش کرنے لگے لیکن وہ ٦ لڑکے اور میں اکیلی میں نہیں چودا سکی پانی میرے چوت میں بھرنے لگا جس میرا پیٹ پھولنے لگا میں زور زور سے چللانے لگے مجھے جانے دو مجھے معاف کر دو مجھے جانے دو پلیز سب لڑکے ہسنے لگے اور سب سے زیادہ عمران حس رہا تھا
رضوان: اتنے مسکل سے ہاتھ یے ہے اور تجھے جانے دے۔ آج تو تجھے ہم سب سے جی بھر کے چودنا ہے اسیسلئے تو تجھے اتنے اچّھی طرح سے صاف کر رہے ہیں۔
ثانیہ: تملوگ جب کہو گے جیسا کہو گے میں کرونگی پر ابھی یہ پائپ نکل لو۔
تب سلیم نے پائپ نکل لیا اور جب تک تو میرا پیٹ میں پانی جانے کی وجہ سے پھول گیا تھا تو ایک لڑکا کہنے لگا کہ دیکھ عمران ابھی تو تیری بہن کو کوئی چودا بھی نہیں یہ تو ابھی سے پیٹ سے ہو گئی ہے۔ جب مجھے سب نے پکڑ کے کھڑا کیا تو میرے پیٹ کا پانی میری چوت سے ایسے نکلنے لگا جیسے میں کھدی ہو کے موت رہی ہوں۔ سب یہ دیکھ دیکھ کے مزا لے رہے تھے جب میرے پیٹ کا پورا پانی نکل گیا تو وہ سب اٹھا کر مجھے بدروب میں لے گئے اور میرے بدن کو طویل سے صف کرنے کے بعد میرے بوبس کے بیچ میں میرے چوت کے بال پر اور میری گانڈ پر اتر لگایا اور بستر میں بھی اتر لگایا اس کے بعد عمران واسلنے کی بوتل لیا۔ سب نے اپنے اپنے لنڈ پر واسلنے لگے اور میری چوت اور گانڈ میں بھی ان لوگ نے واسلنے لگیی۔ واسلنے لگانے کے بعد سب لوگ نے ایک ساتھ میرے اپر چودنے کے لئے آگے۔ رضوان بسٹر پر لیٹ گیا اور سلیم کو کہا کہ اس کو میرے لنڈ پر بٹھا بہت دیر سے سالی کو ننگی دیکھ کر ایک دم بچیں ہو گیا ہے۔ سب لدکو نے مجھے پکڑ کے اٹھایا اور مجھے اس کے لنڈ پر بٹھا دیا۔ اس کا لنڈ میری گانڈ میں جانے لگا میں نے اس دن تک کبھی گانڈ نہیں مریے تھی۔
ثانیہ: میری فاٹ گئی۔ نککالو اس کو میری چوت میں ڈالڈو میری گانڈ مت مارو۔ اااااہ ااااااہ ااااہ ہوووو ہوووو اااااہ
یہ سن کے سلیم کو بھی جوش یا اس نے مجھے رضوان کے اپر ہی لیتا کے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈال کے ہلانے لگا میں درد سے چلّ رہی تھی اااااہ ااااااہ ااااہ ہوووو ہوووو اااااہ یہ دیکھ کے ایک لڑکا نے کہا کہ سالی کو نپل دیتا ہوں۔ اس نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال کے ہلانے لگا جیسے کی میری چوت میں ڈال رہا ہو۔ میرے صاب ہولے لنڈ سے بھرے ہوئے تھے بکے دو نو میرے بدن کو مثل رہے تھے، میرے بوبس کو کھنچ رہے تھے، اسپے نیل سے پانچ کر رہے تھے۔ اچچانک ایک نے میری ناک اپنے ہاتھ سے پکڑ کے بند کردے میرے منہ میں لنڈ ہونے کی وجہ سے میں سانس نہیں لے پا رہے تھی ٢ منٹ کو تو لگا کہ میں مر جاؤں گی لیکن مجھے تداپتے ہوئے دیکھ کے اس نے ہنستے ہوئے میری ناک چود دیا اور اس کے بعد جس کو جس طرح سے سمجھ میں آیا سب نے ٢، ٢ یا ٣، ٣ بار مجھ کو شام ٦ بجے تک چودا۔ پھر رضوان ایک لوکی لے آیا اور وہ میری چوت میں ڈال دی۔ میں درد سے پاگل ہو گی۔
ثانیہ: نہیں نکل لو اسے۔ اتنا تو چود چکے اب یہ کیاااا نہیں مت کرو میں مر ااااہ مر جوں گی۔ نہیییییی۔
رضوان: ارے تیری چوت کو بھر تو عمران نے ہی بنا دیا تھا اب ہم اس کو بھوسدہ بنیںگے تاکی تجھے ایک ساتھ ٢٥ لنڈ لینے میں بھی تکلف نہ ہو۔
عمران: ارے سری ٹریننگ آج مت دو۔ اور بیگان ڈالو پہلے تم تو سیدھے لوکی پل رہے ہو۔ اب سبکی بہنو میں ایک یہی تو ابھی تک ٹتے ہے ٹھوڈی تو رہنے دو۔ بھوسدے کا مزا لینا ہے تو سلیم کی بہن تو ہیں ہی۔
رضوان: تم کہتے ہو تو جانے دیتا ہوں۔ تم تو میرے باپ سامان ہو کیونکی میری ما کو تم نے سبسے زیادہ چودا ہے۔ ہ ہ ہ۔ چلو ٨ بج گئے ہے۔ اس کو گھر پہنچانا ہے۔
پھر مجھے ان لڑکے لوگ نے عمران کے ساتھ اس کی ٹاٹا سومو میں لے کے اے مجھے کچھ ہوش نہیں تھا کہ کیا ہو رہا میں یکدم سے اتنی چودیے سے تھک گئی تھی۔ گاڑی میں بھی مجھے ٹاٹا سومو میں پیچھے دونوں سیٹ کے بیچ میں بیٹھے تھے میرے سامنے والے نے اپنا لنڈ میرے منہ محی ڈال کے رکھا تھا اور پیچھے کے ایک لکدے نے میری چددی کو اور شلوار کو کھول کے میری گانڈ مارنے لگا پورے راستے میں بھی مجھے کسی نہ کسی کا لنڈ منہ میں یا گانڈ میں تھا۔ جب گھر آیا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں گاڑی روک کے مجھے کہا کہ تو آج سے ہماری رکھیل ہے تجھے جب چاہیںگے اور جہاں چاہیںگے تجھے چودنے کے لئے آنا ہوگا۔ اور مجھے ان لوگوں نے وہیں اتر دیا اور عمران کو گھر اترنے لے گئے۔ میں بدی مشکل سے چال پا ر ہی تھی، جاب میں گھر پہنچی تو وہ لوگ گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھے مجھے تھوڑا لنگدا کے چلتے دیکھ کے مسکورانے لگے۔
اس دن کے بعد جب جی میں آتا ان میں سے کوئی بھی لڑکا آکے مجھے کبھی کہاں لے جاکے چودتا کبھی کہاں۔ سبسے زیادہ مجھے رضوان نے چودا کیونکی اس کے گھر دوپہر میں صرف سلیمہ آنٹی اور رضوان ہوتے تھے تب عمران مجھے لے جاتا تھا اور عمران رضوان کی ما چودتا تھا اور رضوان میری گانڈ مارتا تھا۔ اس کو گانڈ مارنے کا زیادہ شہک تھا۔ اور جب رضوان گھر پر نہیں ہوتا تب عمران مجھے اور سلیمہ آنٹی کو ایک ہی بیڈ پر ایک ہی ساتھ چودتا تھا۔ سلیمہ آنٹی کا گڈریا بدن تو وہ کتو کی طرح نوچتا ہی تھا اور مجھے تو خود سلیمہ آنٹی ہی ننگا کرتی تھی اور کہتی تھی یہی تو دن ہے چودنے خانے کے۔ تمہارے ابھی جتنا مزا کر سکتی ہے کر لے۔
کبھی کبھی تو سلیمہ آنٹی میری چوت میں بیگان اور لوکی بھی ڈال دیتی تھی اور مجھے جتنا درد ہوتا اتنا ہی وہ مزا لیتی تھی۔ کہتی تھی تجھے ایسا تیّر کر دوں گی کہ تیرے شوہر کا لنڈ اگر گڑھے کی طرح موٹا ہو تو بھی تو ایک جھٹکے میں ہی پورا اندر لیلے۔
ایک دن ان میں سے ایک لادکا مجھے اپنے ساتھ لے گیا اور کہا کہ اس کا کوئی کزن دلھ سے آیا ہے اس کو اس کی بہن کو چودنا ہے اسلئے کہا کہ میں اس کے کزن کے ساتھ جی بھر مزا دوں اور وہ گھر پر اس کی کزن بہن کو چودے گا۔ میں اس لڑکے کے ساتھ جب چودا کے رکشا میں آ رہی تھی تو مجھے عمران کے بدی بھائی نے دیکھ لیا اور گھر پر اس نے مجھے مارا۔ جب اس نے مارا تو میں نے سب بتا دیا کہ کس طرح سے اس کے بھائی عمران نے مجھے چودا اور اس کے دوستو سے بھی چوودہ کے ان کی رکھیل بنایا، تو اس نے کہا مدرچود تیری چوت میں میرا لنڈ۔ اتنے دن سے تو یہاں حرام کا ہممارے یہاں کھا رہی ہیں وہ کچھ نہیں ذرا اس نے چود دیا تو اس کو بدنام کرنے لگے۔ اور ایک ہفتے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے اس کی پروموشن کے لئے اس کے باس سے چدوانا ہوگا۔
جب میں اس کے باس کے پاس جا رہی تو میں نے سوچا کہ میری چوت کو یہ سب لوگ مفت کا چاندن گھس میرے نندن کی طرح استمعال کر ر ہے ہیں کیوں نہ میں اپنی چوت کی کمات صاب سے لو یہ سوچ کر میں نے سونو کے باس سے چودتے میں کہا کہ اگر اس کو اس کی کسی پارٹی کو بھی خوش کرنا ہوگا تو میں کرونگی بس مجھ کو اس چودیے کی کمات دینی ہوگئی۔ اس کا باس مجھ جیسی خوب صورت لڑکی دیکھ کر خوش ہوا اور اس کی کسی پارٹی کے لئے اس نے مجھے ہی چدیے کا کنٹریکٹ دینے لگا اور پیچھلے ١٩ مونٹھ میں نے اس نے اتنا پیسا کمایا کہ گرگاؤں میں ایک فلیٹ لے لیا ہے۔ تم نے مجھے جس آدمی کے ساتھ دیکھا تھا وہ بھی میرا کلائنٹ ہے۔ یہ سن ایک دم عجیب لگا کہ اس نے اپنی چوت کی وجہ سے ایک فلیٹ بھی خرید لیا ہے۔
اس کی سٹوری سننے کے بعد میرا لنڈ کھڑا ہوگیا اور میں اس کے سامنے ہی نکال کے مٹھ مارنے لگا تو وہ اٹھ کے چلی گئی۔ میں اس کو چودنا چاہتا تھا لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کیسے کہوں کہ میں بھی اسے چودنا چاہتا ہوں۔ مجھے مٹھ مارتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ثانیہ باجی دوبارہ کمرے میں آئیں اور مجھے اپنے ساتھ چپکا کر مجھے کہا کہ بھائی، تمہیں میرے ہوتے ہوئے ہاتھ سے مٹھ مارنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یہ کہہ کر وہ میرا لوڑا چوسنے لگیں۔۔۔

میں ایک آفس میں کام کرتی تھی  چدائی اور لن کو ترسی ہوئی تھی میری دوستی وہاں پٹھان چوکیدار لڑکے سے ہو گئی  او ر ایک دن اسے میں  نے اپنے گھر چدائی لگوانے کے لیے بلوایا اور اس نے آتے ہی اپنا لن نکال لیا اف  اتنا بڑا کم از کم آٹھ  انچ  لمبا اور تین انچ موٹا ڈایا تھا اس نے میری چدائی لگانے میں ذرا دیر نہ کی اور لن چوت میں ڈال دیا اس کے بعد وہ رکا نہیں بلکہ اس کے جھٹکوں میں تیزی اور میرے منہ سے نکلنے والی آوازوں میں بھی تکلیف کے عنصر کی جگہ مزا شامل ہوتا گیا میری آوازوں کے ساتھ اس کے جھٹکوں میں مزید تیزی آجاتی وہ ایک بار اپنا لن ٹوپے تک باہر نکالتا اورپھر پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس کو اندر دھکیل دیتا ایسے ہی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ میری ناف کی جگہ سخت ہونے لگی اور ساتھ ہی میں نے اپنی ٹانگیں اس کے کندھوں سے اتار کر اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیں۔

 چند لمحے بعد میرے جسم نے ایک جھٹکا لیا اور پھر میں ڈھیلی ہوگئی میرا جسم ٹھنڈا پڑگیا لیکن اس کے جھٹکوں میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی  وہ چدائی لگائے جا رہا تھامیری طرف سے رسپانس بھی نہ رہ گیا تھا جس پر وہ رک گیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا میڈم جی بس ابھی تو آپ کو بہت لمبا سفر طے کرنا ہے میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس سے کہا چند منٹ صبر تو وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اس کے لن میں ابھی بھی وہی گرمی تھی وہ ابھی بھی لوہے کی گرم سلاخ جیسا تھا پانچ منٹ بعد میں پھر تیار ہونے لگی اور اپنی ٹانگوں کو اس کے گرد سخت کرنے لگی تو وہ پھر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے لن کو ایک بار پھر باہر نکالا اور بیڈ شیٹ کے ساتھ صاف کیا ۔

میں نے بھی اپنی پھدی کو بیڈ شیٹ سے ہی صاف کیا اور اس نے فوراً اپنے لن کو میری پھدی کے دھانے پر فٹ کر کے پھر سے جھٹکے دینا شروع کردیئے میں سمجھ رہی تھی کہ ابھی چند منٹ میں وہ چھوٹ جائے گا مگر یہ میری غلط فہمی تھی میں دو بار مزید چھوٹی مگر اس کے مکمل ہونے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں تھے میں نے اس کو کہا کہ اب پوزیشن چینج کرتے ہیں تو میرے اندر سے نکل گیا اب اس نے مجھے بیڈ کے نیچے گھوڑی کی طرح کھڑا کیا اور میرے دونوں ہاتھ بیڈ کے اوپر رکھ کر پیچھے سے میری پھدی کے اندر لن ڈال دیا اب میرے ممے اس کے ہاتھ میں تھے اور جیسے ہی وہ جھٹکا دے کر اپنا پورا لن اندر کرتا اس کے ساتھ ہی میرے مموں پر اس کی پکڑ سخت ہوجاتی اور لن باہر نکلنے پر وہ مموں کو ڈھیلا چھوڑ دیتا اس کا جھٹکا اتنا زبردست ہوتا کہ اس کا لن میرے اندر جاکر میرے کلیجے کے ساتھ ٹکراتا اور میں آگے گرنے لگتی ۔

لیکن اس نے مجھے پکڑ رکھا ہوتا تھا جس کی وجہ سے میں نہ گرتی کبھی کبھی وہ میرے مموں کو چھوڑ کر چند لمحوں کے لئے اپنے جھٹکے نرم کرتا اورساتھ ہی ایک ہاتھ سے میرے ایک چوتڑپر ایک تھپڑ رسید کرتا جس کے ساتھ ایک سیکسی آواز پیدا ہوتی اور میری تڑپ جو کم ہورہی ہوتی تھی وہ مزید پھر سے بڑھ جاتی پھر دوسرے ہاتھ سے دوسرے چوتڑ کو تھپڑ مارتا اور پھر میرے مموں کو پکڑ کر جھٹکے تیز کردیتا اس دوران کم از کم میں دو بار فارغ ہوگئی جبکہ پہلے والے سٹائل میں بھی میں ایک  بارچھوٹ چکی تھی ۔

اب مجھ میں مزید جھٹکے برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی تھی لیکن میں پھر بھی اس کا ساتھ دیتی رہی اور شاباش ہے اس نوجوان پر وہ ایک گرتی پڑتی عورت کو اپنے ساتھ لئے چل رہاتھا  اور برابر چدائی لگا رہا تھا پھر اس نے چدائی کرتے کرتے اچانک اپنا پورا لن باہر نکال لیا میں سمجھی شائد وہ فارغ ہونے والا ہے میں نے اس کو کہا کہ اندر ہی چھوٹ جاؤ تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا میڈم ابھی کہاں میں تو پوزیشن چینج کرنے لگا ہوں ابھی تک میں ہی مشقت کررہا ہوں اب تھوڑی سی محنت آپ بھی کرلیں اس کے بعد وہ بیڈ کے اوپر لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا میں جو پہلے ہی تھک کر چور ہوچکی تھی اس کے کہنے پر  چدائی لگوانے اس کے اوپر چڑھ گئی ۔

میں نے چدائی کے لیے اپنی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر رکھیں اور اس کا لن اپنے اندر لیا جیسے ہی میں اس کے اوپر اس کا لن پورا کا پورا میرے اندر چلا گیا میں نے دو تین بار اس کو اندر باہر کیا تو نڈھال ہوکر اس کے اوپر گر گئی تو ہنستے ہوئے کہنے لگا کیا ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ اب مجھ میں چدائی  کی ہمت نہیں ہے اس نے مجھے کہا ٹھیک ہے آپ اتر جائیں تھوڑی دیر کے بعد کرلیں گے میں اس کے اوپر سے نیچے اتری اور اس کے کندھے کے اوپر سر رکھ کر اس کے سینے کے بالوں سے کھیلنے لگی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے نیند آگئی پھر اس وقت میری آنکھ کھلی جب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا  اور کہنے لگا میڈم اگر سونا ہی ہے تو مجھے کیوں بلایا تھا ۔

میں نے اس کے لن کو دیکھا وہ ابھی تک کسی شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا میں نے اس کو پکڑ تو وہ پتھر کی طرح سخت اور لوہے کی طرح گرم تھا اچانک ر کہنے لگا میڈم آپ کا پیچھے کے راستے سے کیا خیال ہے میں نے اس کی بات سنی تو انکار کردیا (اس سے پہلے میں نے پیچھے کے راستے کبھی نہیں کیا تھا) اس نے اصرار کیا تو میں مان گئی اس نے مجھے تیل یا کوئی لوشن لانے کو کہا میں باتھ روم میں گئی اور تیل کی شیشی اٹھا لائی اور اس کو تھما دی  مجھے معلوم نہیں تھا یہ چدائی ایک مصیبت بن جائے گی اس نے ایک بار پھر مجھے بیڈ کے ساتھ گھوڑی سٹائل میں کھڑا کیا او رمیرے ہاتھ بیڈ کے اوپر لگا دیئے اس نے تیل کی شیشی کھولی۔

 اور میرے گانڈ پر کافی سارا تیل ملا پھر اپنے لن کے ٹوپے پر بھی تیل لگایا اور پھر ایک انگلی میری گانڈ میں ڈال ڈی مجھے تکلیف ہوئی اور میں جھٹکے کے ساتھ سیدھی ہوگئی اس کی انگلی میری گانڈ سے باہر نکل آئی تو کہنے لگا میڈم اس میں بہت تکلیف ہوگی لیکن پھر مزہ بھی بہت آئے گا اگر آپ تکلیف برداشت کرلو گی تو میں کرتا ہوں ورنہ نہیں کرتا میں چپ چاپ  چدائی لگوانے پھر اسی سٹائل میں ہوگئی اس نے اپنے لن کا ٹوپا میری گانڈ کے اوپر رکھا اور ایک ہاتھ سے میرا منہ پکڑ لیا جبکہ دوسرا ہاتھ میرے پیٹ کے گرد کس لیا اور ایک زور دار جھٹکا دیا ۔

جس سے مجھے ایسے لگا جیسے میری گانڈ کسی نے چیر دی ہو میرے منہ سے چیخ بھی نکلی لیکن اس کا ہاتھ میرے منہ پر تھا جس کے باعث آواز نہ نکل سکی میں نے اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک اور جھٹکا دیا اس کا لن مزید تھوڑا سا اندر چلا گیا میں تکلیف کے باعث مرنے والی ہوگئی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا اس نے اگر مجھے پکڑا نہ ہوتا تو میں منہ کے بل گر جاتی اتنا مجھے اندازہ تھا کہ ابھی اس کا پورا لن میرے اندر نہیں گیا تھا ابھی پہلے جھٹکے سے نہیں سنبھلی تھی کہ اس نے لگا تار بلا کسی وقفے کے دو تین اور جھٹکے دیئے اور پھر پیچھے سے ہی میرے ساتھ چمٹ گیا میرا پورا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا اور مجھے اپنی گانڈ میں بری طرح تکلیف محسوس ہورہی تھی میری آنکھوں کے سامنے بدستور اندھیرا تھا کہ میرے کانوں میں اس کی آواز آئی میڈم مبارک ہو پورا لن تمہارے اندر چلا گیا میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن حلق سے آواز ہی نہ نکلی جیسے اس کا لن میری گانڈ میں نہیں میرے حلق میں چلا گیا ہو میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ مجھے ایسی مبارک باد نہیں چاہئے تم اس کو باہر نکالو میری توبہ ایسی چدائی سے

ابھی میں اپنے حواس بحال نہیں کرپائی تھی کہ اس نے پیچھے سے اپنی پکڑ نرم کی اور پھر سے جھٹکے دینے لگا اس کا ایک ہاتھ جو میرے منہ کے اوپر تھا وہ بھی میرے پیٹ کے گرد چلا گیا میں اونچی آواز میں چیخنے لگی پلیز بس کرو میں مر جاؤں گی ہائے ئے ئے ئے ہائے امی جی مجھے بچالو میں مرجاؤں گی بس کرو تو وہ جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگا بس میری جان اب تھوڑا سااور اس کے ساتھ ہی اس کے جھٹکوں میں مزید تیزی آنے لگی پھر اچانک وہ رک گیا اور مجھ سے کہنے لگا میڈم کیا خیال ہے فارغ ہوجائیں کہ ابھی مزید کچھ کرنا ہے چدائی جاری رکھوں کیا میں تکلیف کے مارے کراہ رہی تھی اس کو کراہتے ہوئے کہا اب بس کرو میں مر جاؤں گی پھر اس نے چار پانچ آہستہ آہستہ جھٹکے دیئے اور پھر مضبوطی سے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا مجھے اپنے اندر کوئی گرم لاوا جاتے ہوئے محسوس ہوا چند لمحے بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے پیٹ سے علیحدہ کیئے اور میں دھڑم سے بیڈ کے اوپر گر گئی ۔

اتنی سخت چدائی مجھے نہیں معلوم کیا ہورہا ہے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ میرے گالوں کو تھپتھپا رہا ہے اور کچھ کہہ رہا ہے کیا کہہ رہا ہے کوئی پتا نہیں پھر اس نے میری ٹانگیں اوپر کیں اور خود بھی میرے ساتھ آکر لیٹ گیا بیس پچیس منٹ ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میرے حواس کسی حد تک بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ رات کے تین بج رہے ہیں  چدائی کرا کے میری پھدی اور گانڈ دونوں مقامات پر درد ہورہی تھی گانڈ میں درد ناقابل برداشت حد تک زیادہ تھی میں نے دیکھا وہ بھی میرے ساتھ ہی ننگا لیٹا ہوا ہے اور سامنے ٹی وی پر وہی بلیو فلم چل رہی ہے مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی اور اس نے مجھے لیٹے لیٹے گلے سے لگا لیا ۔

میں نے محسوس کیا کہ اس کا لن پھر سے شہوت پکڑ رہا ہے میں فوری طورپر اس سے علیحدہ ہوگئی تو اس نے کہا کیا ہوا میڈم میں کچھ نہ بولی تو مجھے پھر سے کسنگ کرنے لگا اس نے مجھے کہا کیا خیال ہے میڈم ایک بار پھر  چدائی ہوجائے تو میں نے کہا تم اتنے بے رحم ہو کیا مجھے مارڈالنا چاہتے ہوتو مسکراتے ہوئے کہنے لگا نہیں تو پھر کبھی سہی آج چھوڑ دیتے ہیں اب مجھے چائے کی طلب ہورہی تھی میں نے سوچا کہ اٹھ کر جاؤں تو مجھ سے اٹھا نہ گیا اس نے مجھے سہارا دے کراٹھایا اور کہنے لگا کیا کرنا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ باتھ روم اور کچن میں جانا چاہتی ہوں تو اس نے مجھے کھڑا کر دیا ابھی دو قدم بھی نہ چلی تھی کہ میری آنکھوں کے گرد پھر سے اندھیرا آگیا ایک زبردست چکر آیا اور میں گرنے لگی کہ اس نے مجھے سنبھالا دیا اور پکڑ کر باتھ روم لے گیا جہاں میں نے اپنی پھدی اور گانڈ کو دھویا تو گانڈ سے لہو نکل رہا تھا جبکہ پھدی بھی سوجی ہوئی تھی ۔

میں نے سر اٹھا کر کی طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا پہلی بار چدائی ہوئی اس لئے تھوڑا سا خون نکل آیا پریشانی کی کوئی بات نہیں خیر اس نے مجھے پھر پکڑ کر بیڈ تک پہنچایا اور پھر ننگاہی کچن میں چلا گیا اور دو کپ چائے لے آیا اس نے مجھے سہارا دے کر اٹھا یا اور تکیے کی ٹیک دے کر بٹھا دیا ہم دونوں نے چائے پی اور پھر باتیں کرنے لگے اب بھی مجھے اسی شدت کے ساتھ گانڈ میں درد ہورہا تھا جیسا کہ اس وقت جب  اس  کا لن میری گانڈ کے اندر تھا اس کے علاوہ پھدی کے اندر بھی جلن محسوس ہورہی تھی پھر وہ پٹھان چوکیدار  لڑکا بیڈ کے اوپر سیدھا لیٹ گیا اور میں سائیڈ لے کر اس کے ساتھ کندھے پر سر رکھ کرلیٹ گئی اور اس کے سینے کے بالوں کو انگلیوں کے ساتھ کنگھی کرنے لگی ۔

میں نوٹ کررہی تھی کہ اس کا لن پھر کھڑا ہوگیا لیکن اب ہم نے کچھ نہ کیا صبح کے پانچ بجے تواس  نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور مجھ سے اجازت لے کر چلا گیا میں نے بھی کپڑے پہنے اور سو گئی صبح کس وقت ہوئی مجھے نہیں معلوم میری بیٹی کو ملازمہ نے تیار کرکے سکول بھیج دیا میں اٹھی تو دوپہر کے د و بج رہے تھے میرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا درد اب بھی اسی شدت کے ساتھ تھا مجھے بخار بھی ہوگیا تھا میں نے دیکھا بیڈ شیٹ پر منی اور خون کے دھبے تھے میں گرتی پڑتی اٹھی اور بیڈ شیٹ چینج کرکے پھر لیٹ گئی ملازمہ نے کمرے میں ہی مجھے چائے لا کر دی میں نے ایک پین کلر لی لیکن بخار ٹوٹنے کا نام نہیں لے  پھر ڈاکٹر کی دوائی سے میرا بخار تو ختم ہوگیا لیکن تین روز تک میری گانڈ میں درد ہوتی رہی چدائی اتنی سخت تھی کیا بتاوں ۔

 یہ درد اتنی شدید تھی کہ مجھ سے صحیح طریقہ سے بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا مجھے تین روز تک پاخانہ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا رہا تاہم تین دن کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوگئی دو دن دفتر سے چھی لی  اور پھر اگلے پانچ دن بعد ویک اینڈ تھا اور  پھر چدائی کے لیے میں نے اسی پٹھان چوکیدار لڑکے  کوگھر آنے کا کہا  وہ پھر چدائی کرنے  میرے گھر آیا اور ہم نے ایک بار پھر مزہ کیا لیکن میں نے اس روز سے گانڈ مروانے سے توبہ کرلی ہے دوسری بار سیکس کے دوران بھی نے گانڈ  چدائی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن میں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔

جس پر وہ ہنسنے لگا اور اس نے پھر مجھے اس کام کے لئے نہیں کہا پہلی بار سیکس کے دوران اس کی ٹائمنگ ایک گھنٹہ سے زیادہ تھی لیکن دوسری بار اس کی ٹائمنگ کم ہوکر بیس سے پچیس منٹ تک رہ گئی اس حوالے سے اس نے بتایا کہ پہلی بار کی ٹائمنگ کی وجہ افیون کا استعمال تھا لیکن میں ہر چدائی  اور سیکس کے لئے افیون استعمال نہیں کرتا ابھی تک میں اس کے ساتھ تین بار سیکس کرچکی ہوں اور میری خواہش ہے کہ اس پٹھان چوکیدار لڑکے  کے ساتھ میرا تعلق لانگ ٹرم کے لئے ہو۔

میں اپنے گھر تو شام کو پہنچی۔ وہاں سے براہ راست عاشی کے گھر گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کسی کو پتہ نہیں چلا۔
عاشی نے اپنے وعدے کے مطابق میرے رشتے کی بات اپنے ممی پاپا سے چلائی اور وہ مان بھی گئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا رشتہ بھی سکندر کے ساتھ پکا ہو گیا۔ چھ ماہ میں ہی ہم دونوں کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔
ان چھ ماہ کے دوران سکندر نے مجھے کئی بار مختلف جگہ پر بلا کر چودا۔ اس کے پاس میری تصویریں تھی، وہ تو ایک وجہ تھی ہی، لیکن مجھے بھی سکندر کے لنڈ کا چسکا لگ چکا تھا لیکن میں بتا نہیں پا رہی تھی کیونکہ وہ عاشی کا ہونے والا شوہر تھا۔
سکندر نے ایک دن ہم دونوں کو وہ تصویریں اور موویز دکھائیں۔ میں تو شرم سے پانی پانی ہو گئی پر عاشی نے خوب چٹخارے لیے۔ میں اب پوری طرح سکندر کے چنگل میں تھی۔ اس نے مجھے اکیلے میں دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ اس کی بات اگر میں نے نہیں مانی تو وہ یہ فلم دانش کو دکھا دے گا۔
خیر میں نے وعدہ کر لیا۔ شادی سے چند دن پہلے سکندر کے کسی رشتہ دار کی موت ہو گئی اس لیے اس کی اور عاشی کی شادی کچھ دنوں کے لیے ٹل گئی۔ میری اور دانش کی شادی مقررہ دن کو ہی ہونی تھی۔
ہمارے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی۔ عاشی سکندر کو بھی ہمارے گھر لے آتی تھی۔ دونوں کی منگنی ہو چکی تھی اس لیے کسی کو کسی بات پر اعتراض نہیں تھا۔
مایوں کی رسم شروع ہونی تھی، میرے گھر والے اس میں مصروف تھے۔ میرے کمرے میں آ کر عاشی مجھے لے کر باتھ روم میں گھسی: اپنے یہ کپڑے اتار کر یہ سوتی ساڑھی لپیٹ لے!
اس نے کہا اور میں نے اپنے کپڑے اتارنے لگی۔
تبھی دروازے پر ٹھک ٹھک ہوئی۔
"کون؟"
پوچھنے پر پھسپھساتی ہوئی سکندر کی آواز آئی۔
عاشی نے ہلکے سے دروازہ کھولا اور وہ جھٹ سے باتھ روم میں گھس گیا۔
"مرواؤ گے آپ! اس طرح بھری محفل میں کوئی دیکھ لے گا تو بڑی مشکل ہو جائے گی! جم کر جوتے پڑیں گے! " عاشی نے کہا۔
مگر وہ اتنی جلدی مان جانے والا انسان تھا ہی نہیں۔ ویسے بھی یہ باتھ روم ہمارے بیڈروم سے اٹیچڈ تھا۔ اس لیے کسی کو یہاں آنے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا۔ سکندر پہلے ہی سارا انتظام کرکے آیا تھا، دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔
"آج تو صائمہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی ہے! " سکندر نے کہا: آج تو میں اسے تیار کروں گا! تو ہٹ!
عاشی میرے پاس سے ہٹ گئی۔ سکندر اس جگہ آ گیا۔ اس نے میرے کرتے کو بلند کرنا شروع کیا۔ میں نے بھی ہاتھ بلند کر دیئے۔ اب تک میں اتنی بار سکندر سے چدوا چکی تھی کہ اب اس کے سامنے کوئی شرم باقی نہیں بچی تھی۔ صرف کسی کے آ جانے کا ڈر ستا رہا تھا۔
اس نے میرے کرتے کو بدن سے الگ کر دیا، پھر مجھے پیچھے گھما کر میرے برا کے ہک کھول دیے، پھر دونوں سٹرپ کو پکڑ کر کندھے سے نیچے اتار دیے۔ میری برا کھل کر اس کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس نے اس کو میرے بدن سے الگ کر کے اپنے ہونٹوں سے چوما اور پھر عاشی کو پکڑا دیا۔
پھر اس نے میری شلوار کے ناڑے کو پکڑ کر اسے ڈھیلا کر دیا۔ شلوار ٹانگوں سے سرسراتی ہوئی نیچے میرے قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔
پھر اس نے میری پینٹی کے الاسٹک کو دو انگلیوں سے کھینچ کر کھلا کیا۔ پھر اپنے ہاتھ کو دھیرے دھیرے نیچے لے گیا۔ چھوٹی سی پینٹی بدن سے کینچلی کی طرح اتر گئی۔ میں اس کے سامنے اب بالکل ننگی ہو گئی تھی۔ اس نے کھینچ کر مجھے شاور کے نیچے کر دیا۔ پھر میرے بدن کو مسل مسل کر نہلانے لگا۔
عاشی نے روکنا چاہا کہ ابھی یہ سب کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن اس نے کہا: تم دوبارہ نہلا دینا!
مجھے نہلانے کے بعد اس نے میرے سارے بدن کو پونچھ پونچھ کر خشک کیا۔
"لو، صائمہ کو یہ ساڑی پہنانی ہے۔ دیر ہو رہی ہے اسے مایوں لگوانی ہے۔" عاشی نے ایک ساڑی سکندر کی طرف بڑھائی۔
"پہلے میں اسے اپنے رس سے نہلا دوں، پھر اسے کپڑے پہنانا۔" کہہ کر سکندر نے مجھے باتھروم میں ہی جھکنے پر مجبور کر دیا۔ پہلے سکندر کی ایسی بدتمیزیوں سے مجھے سخت نفرت تھی مگر آج کل جب بھی وہ مجھے ایسے کرتا تو پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا تھا، میں چپ چاپ اس کے کہنے کے مطابق کام کرنے لگتی تھی اور چدائی کے مزے لیتی تھی گویا اس نے مجھے کسی جادو  میں باندھ رکھا ہو۔
اس نے پیچھے سے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیا اور میری چھاتیوں کو مسلتے ہوئے دھکے مارنے لگا۔
"جلدی چودو! لوگ باہر تلاش کرتے ہوئے یہاں آتے ہوں گے! " عاشی نے سکندر سے کہا۔
وہ مجھے دھکے کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی، "میری سہیلی کو کیا کوئی رنڈی سمجھ رکھا ہے تو جب موڈ آئے ٹانگیں پھیلا کر ٹھوکنے لگتا ہے؟"
سکندر کافی دیر تک مجھے اس طرح چودتا رہا۔ پھر میری ایک ٹانگ کو اوپر کر دیا۔ اس وقت میں دیوار کا سہارا لیے ہوئے کھڑی تھی، میرا ایک پاؤں زمین پر تھا دوسرے کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ میری پھیلی ہوئی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر پھر چودنے لگا۔ مگر اس پوزشن میں وو زیادہ دیر نہیں چود سکا اور اس نے میری ٹانگ کو چھوڑ دیا۔ اب اس نے مجھے عاشی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور پھر چودنے لگا۔۔۔
میں نے اس کی اس حرکت سے تڑپتے اور مزے لیتے ہوئے اپنے پانی کی بارش کر دی۔ وہ بھی اب چھوٹنے ہی والا تھا۔ اس نے اچانک اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور مجھے گھٹنوں کے بل جھکا کر میرے بدن کو اپنی منی سے بھگو دیا، چہرے پر، چھاتی پر، پیٹ، ٹانگوں اور یہاں تک کہ بالوں میں بھی منی  کے قطرے لگے ہوئے تھے۔
کچھ منی اس نے میری برا کے کپس میں ڈال دی۔ اس نے پھر مسل کر میرے بدن پر اپنی منی کا لیپ چڑھا دیا۔ میرا پورا بدن چپچپا ہو رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے اٹھا کر اپنی منی سے بھیگی ہوئی برا مجھے پہنا دی۔ اس نے پھر مجھے باقی سارے کپڑے پہنا دیے۔
میں باتھ روم سے باہر آ گئی، عاشی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور ہم باہر نکل گئے۔ سکندر دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا ہمارے جانے کے کچھ دیر بعد جب وہاں کوئی نہیں بچا تو چپ چاپ نکل کر چلا گیا۔ اس کی ان حرکتوں سے تو میرا دل کافی دیر تک زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عاشی کے ماتھے پر بھی پسینہ بہہ رہا تھا۔
مایوں کی رسم اچھی طرح پوری ہو گئی۔ پھر کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

شادی کے دن میں بیوٹی پارلر سے میک اپ کروا کر واپس آئی تھی شام کو 6 بجے۔
بیوٹیشین نے بہت محنت سے سنوارا تھا مجھے۔ میں ویسے بھی بہت خوبصورت ہوں اس لیے تھوڑی محنت سے ہی بالکل اپسرا کی طرح لگنے لگی، سنہری لہنگے چولی میں بالکل راجکماری سی لگ رہی تھی، عاشی ہر وقت ساتھ ہی تھی، کافی دیر سے سکندر کہیں نہیں دکھا تھا۔
شادی کے لیے ایک میرج ہال بک کیا گیا تھا۔ اس کی دوسری منزل پر میرے ٹھہرنے کا مقام تھا۔ میں اپنی سہیلیوں سے گھری ہوئی بیٹھی تھی۔ شام کو تقریبا نو بجے بینڈ والوں کا شور سن کر پتہ چلا کہ بارات آ رہی ہے۔
میری سہیلیاں دوڑ کر کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ وہاں اندھیرا  ہونے سے کسی کی نظر اوپر کھڑکی پر نہیں پڑتی تھی۔ اب میری سہیلیاں وہاں سے اے کے ایک کر کے کھسک گئیں۔ کچھ کو تو بارات پر پھولوں کی  بارش کرنی تھی اور کچھ دولہے اور بارات کو دیکھنے کے لیے چلی گئیں۔
میں کچھ دیر کے لیے بالکل اکیلی پڑ گئی۔ ایک دروازہ پاس کے کمرے میں کھلتا تھا۔ اچانک وہ دروازہ کھلا اور سکندر اندر آیا۔
میں اس وقت اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گئی، دماغ میں چل رہا تھا کہ آج بھی مجھے چود کر رخصت کرے گا کیا۔
اس نے آ کر باہر کے دروازے کو بند کر دیا۔
"سکندر، اب کوئی غلط حرکت مت کرنا، کسی کو پتہ چل گیا تو میری زندگی برباد ہو جائے گی، سب تھوکیں گے مجھ پر، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاؤں گی۔" میں نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے وہ چپ رہا۔
"دیکھو شادی کے بعد جو چاہے کر لینا، جہاں چاہے بلا لینا، مگر آج نہیں! آج مجھے چھوڑ دو! "
"ارے، آج تو اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ تم سے ملے بغیر نہیں رہ پایا۔ بس ایک بار پیار کر لینے دے! " وہ آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں اس سے اپنے کو الگ نہیں کر پا رہی تھی، ڈر تھا سارا میک اپ خراب نہ ہو جائے۔
میں نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس نے میرے چھاتی پر ہلکے سے ہاتھ پھیرا۔ شاید اسے بھی میک اپ بگڑ جانے کا ڈر تھا۔
"آج تجھے اس وقت ایک بار پیار کرنا چاہتا ہوں۔" کہہ کر اس نے میرے لہنگے کو پکڑا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس سے منع کرنے لگی۔ مگر اس نے سنا نہیں اور میرے لہنگے کو کمر تک اٹھا دیا۔ پھر اس نے میری گلابی شفاف پینٹی کو کھینچ کر نکال دیا، اسے اپنی پینٹ کی جیب میں بھر لیا۔
پھر مجھے کھلی ہوئی کھڑکی پر جھکا کر میرے پیچھے سے چپک گیا۔ اس نے اپنے پینٹ کی زپ کھولی اور اپنے کھڑے لنڈ کو میری چوت میں پیل دیا۔
میں کھڑکی کی چوکھٹ کو پکڑ کر جھکی ہوئی تھی اور وہ پیچھے سے مجھے ٹھوک رہا تھا۔ سامنے بارات آ رہی تھی اس کے استقبال میں بھیڑ امڈتی پڑی تھی اور میں دلہن کسی اور سے چدوا رہی تھی۔ لگتا تھا سب باراتیوں کے سامنے چدوا رہی ہوں۔
وہاں اندھیرا اور سامنے ایک درخت ہونے کی وجہ سے کسی کی نظر نہیں پڑ رہی تھی ورنہ غضب ہو جاتا۔ سامنے ناچ گانا چل رہا تھا۔ سب اسے دیکھنے میں مصروف تھے اور ہم چدائی کر رہے تھے۔ کچھ دیر میں اس نے ڈھیر ساری منی میری چوت میں ڈال دیا۔ میرا بھی اس کے ساتھ ہی پانی نکل گیا۔
بارات اندر آ چکی تھی۔۔۔
تبھی کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سکندر جھپٹ کر بغل والے کمرے کی طرف لپکا۔
میں نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا، "میری پینٹی تو دیتے جاؤ! " میں نے کہا۔
"نہیں یہ میرے پاس رہے گی۔" کہہ کر وہ بھاگ گیا۔
دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ میری دو تین سہیلیاں اندر آئیں۔۔۔
"کیا ہوا؟" انہوں نے پوچھا۔
"کچھ نہیں! آنکھ لگ گئی تھی تھکاوٹ کی وجہ سے۔" میں نے بات کو ٹال دیا مگر عاشی سمجھ گئی کہ میں سکندر سے چدی ہوں۔ میں نے اسے اپنے کو گھورتے پایا۔
میں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
"چلو چلو، بارات آ گئی ہے۔ آنٹی  انکل بلا رہے ہیں! " سب نے مجھے اٹھایا اور میرے ہاتھوں میں مالا تھما دی۔ میں ان کے ساتھ مالا تھامے لوگوں کے درمیان سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی۔ سکندر کی منی بہتی ہوئی میرے گھٹنوں تک آ رہی تھی۔
پینٹی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں رانیں چپچپی ہو رہی تھیں۔
اسی حالت میں میری شادی ہوئی۔ شادی کے فنکشن کے دوران جب بھی سکندر نظر آیا اس کے ہاتھوں کے درمیان میری گلابی پینٹی جھانکتی ہوئی ملی۔
ایک مرد سے میری شادی ہو رہی تھی اور دوسرے کی منی میری چوت سے ٹپک رہی تھی۔ کیسی عجیب حالت تھی۔۔۔

صبح ساڑھے نو بجے کسی کے دروازے کی گھنٹی بجائے جانے پر نیند کھلی تو میں نے پایا کہ میرا پورا بدن درد کر رہا تھا۔ میں نے اپنے جسم کا جائزہ لیا۔ میں بستر پر آخری چدائی کے وقت جیسے لیٹی تھی، ابھی تک اسی طرح ہی لیٹی ہوئی تھی۔ انگلش کے X حروف کی طرح۔
سنی شاید صبح اٹھ کر جا چکا تھا۔ سکندر نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
تیزی سے عاشی اندر آئی بستر پر مجھ پر نظر پڑتے ہی چیخ اٹھی - سکندر، صائمہ کی کیا حالت بنائی ہے تم نے؟ تم پورے وحشی ہو۔ بیچاری کے پھول جیسے بدن کو کس بری طرح کچل ڈالا ہے؟
وہ بستر پر بیٹھ کر میرے چہرے پر اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
"ٹیسٹی مال ہے! " سکندر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بے ہودگی سے کہا۔
عاشی مجھے سہارا دے کر باتھ روم میں لے گئی۔ میں باتھ روم میں جاتے ہی اس سے لپٹ کر رو پڑی۔ اس نے مجھے غسل دیا۔ میں نہا کر کافی تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔ کپڑے باہر بستر پر ہی پڑے تھے۔ برا اور پینٹی کے تو چیتھڑے اڑ چکے تھے۔ شلوار کا ناڑا بھی انہوں نے توڑ دیا تھا۔ ہم اسی حالت میں کمرے میں آئے۔
اب اتنا سب ہونے کے بعد پوری ننگی حالت میں سکندر کے سامنے آنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
وہ بستر کے سرہانے پر بیٹھ کر میرے بدن کو بڑی ہی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اپنے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، اس نے میرے کپڑوں کو کھینچ لیا۔ ہم دونوں سہیلیوں کی نظر اس کی طرف اٹھ گئی۔
"نہیں، ابھی نہیں! " اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ابھی جانے سے پہلے ایک بار اور! "نہییییں! " میرے منہ سے اس کی بات سنتے ہی نکل گیا۔
"اب کیا جان لو گے اس کی؟ رات بھر تو تم نے اسے مسلا ہے۔ اب تو چھوڑ دو اسے! " عاشی نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس کے منہ پر تو میرے خون کا ذائقہ چڑھ چکا تھا۔ "نہیں، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ تُو بھی تو دیکھ اپنی سہیلی کو چدواتے ہوئے! " سکندر ایک بھدی سی ہنسی ہنسا۔ پتہ نہیں عاشی کیسے اس کے چکر میں پڑ گئی تھی۔
اس نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عاشی سے کہا، "چل اسے منہ میں لے کر کھڑا کر! " عاشی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا لیکن وہ بے ہودوں کی طرح ہنستا رہا۔ اس نے عاشی کو کھینچ کر پاس پڑی ایک کرسی پر بٹھا دیا اور اپنا لنڈ چوسنے کو کہا۔ عاشی اس ڈھیلے لنڈ کو کچھ دیر تک ایسے ہی ہاتھ سے سہلاتی رہی، پھر اسے منہ میں لے لیا۔
سکندر نے عاشی کی قمیض اور برا اتار دی۔ زندگی میں پہلی بار ہم دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے سامنے ننگی ہوئی تھیں۔ عاشی کا بدن بھی کافی خوبصورت تھا۔ بڑے بڑے ابھار، پتلی کمر کسی بھی لڑکے کو دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھا۔
سکندر میرے سامنے ہی اس کی چھاتیوں کو سہلانے لگا، ایک ہاتھ سے عاشی کا سر پکڑ رکھا تھا دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل مسل رہا تھا، چہرے سے لگ رہا تھا کہ عاشی گرم ہونے لگی ہے۔ میں بستر پر بیٹھ کر ان دونوں کی راس لیلا دیکھ رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں شامل کیے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔
میں نے اپنے بدن پر نظر دوڑائی، میرے دونوں مموں پر ان دونوں درندوں کے دانتوں کے نشان تھے، میری چوت سوجی ہوئی تھی، رانوں پر بھی دانتوں کے نشان تھے، دونوں نپلز بھی سوجے ہوئے تھے۔ عاشی نے کوئی پین کلر کھلائی تھی باتھ روم میں، اس کی وجہ درد کچھ کم ہوا تھا۔ درد کچھ کم ہوتے ہی میں ان دونوں کا کھیل دیکھ دیکھ کر کچھ گرم ہونے لگی۔
سکندر کا لنڈ کھڑا ہونے لگا۔ سکندر مسلسل عاشی کے منہ کو چود رہا تھا، اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اس نے رات بھر میری چوت میں منی ڈالی ہے۔ مجھے تو پیروں کو سکوڑ کر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی اور وہ تھا کہ سانڈ کی طرح میری حالت اور بھی بری کرنے کے لیے تیار تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے اتنی گرمی تھی اس کے اندر۔
اس کا لنڈ کچھ ہی دیر میں ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس نے عاشی کو کھڑا کرکے اس کی شلوار اور انڈرویئر اتار اسے بھی پوری طرح ننگی کر دیا۔ عاشی کو واپس کرسی پر بٹھا کر اس کی چوت میں اپنی انگلی ڈال دی۔ انگلی جب باہر نکلی تو وہ عاشی کے رس سے گیلی ہو رہی تھی۔ سکندر نے اس انگلی کو میرے ہونٹوں سے ٹچ کیا: لے چکھ کر دیکھ! کیسی مست چیز ہے تیری سہیلی!
میں منہ نہیں کھول رہی تھی مگر اس نے زبردستی میرے منہ میں انگلی گھسا دی۔ عجیب سا لگا عاشی کے رس کو چکھنا۔
"پوری طرح مست ہو گئی ہے تیری سہیلی! " اس نے مجھ سے کہا۔
اس نے اب اپنا لنڈ عاشی کے منہ سے نکال لیا، اس کا بڑا لنڈ عاشی کے تھوک سے چمک رہا تھا۔ پھر مجھے اٹھا کر اس عاشی پر جھکا دیا، کچھ اس طرح کہ میرے دونوں ہاتھ عاشی کے کندھوں پر تھے، میں اس کے کندھوں کا سہارا لیے جھکی ہوئی تھی، میرے بوبس عاشی کے چہرے کے سامنے جھول رہے تھے۔ سکندر نے میری ٹانگوں کو پھیلایا اور میری چوت میں اپنا لوڑا ڈالا۔
لنڈ جیسے جیسے اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میری چوت کی دیواروں پر ریگ مار گھس رہا ہو۔ میں درد سے "آ آآ ااہ افففف!" کر اٹھی۔
پتہ نہیں کتنی دیر اور کرے گا؟ اب تو مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ وہ مجھے پیچھے سے دھکے لگانے لگا تو میرے ممے جھول جھول کر عاشی کے چہرے سے ٹکرانے لگے۔ عاشی بھی مستی میں آ گئی تھی اور مستی میں کسمسا رہی تھی، وہ پہلی بار مجھے اس حالت میں دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں بہت پکی سہیلیاں ضرور تھیں مگر لیزبین نہیں تھیں۔
سکندر نے میرا ایک نپل اپنی انگلی پکڑ کر کھینچا۔ میں نے درد سے بچنے کے لیے اپنے بدن کو آگے کی طرف جھکا دیا۔ اس نے میرے نپل کو عاشی کے ہونٹوں سے ٹچ کیا، "لے چوس چوس۔۔۔ میری رانڈ کے ممے کو! " عاشی نے اپنے ہونٹ کھول کر میرے نپل کو اپنے ہونٹوں کے بیچ دبا لیا۔ سکندر میرے بوبس کو زور زور سے مسلنے لگا۔ کچھ اس طرح گویا وہ ان سے دودھ نکال رہا ہو۔
میری چوت میں بھی پانی رسنے لگا، میں "آ آآ اہہ ہہ اووووہ اففففف اوئی اویئی مااا اووفففف" جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔
سکندر کبھی گانڈ میں کبھی چوت میں لنڈ پیل رہا تھا، میری گانڈ کی دھجیاں اڑ رہی تھیں اور چوت بھوسڑا بن رہی تھی، کمرے میں سکگ اور پھککگ کی "پھچ پھچ" کی آواز گونج رہی تھی۔
وہ درمیان درمیان میں عاشی کے بوبس کو مسل دیتا۔۔۔ اس نے میرے بالوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیے اور اپنی طرف کھینچنے لگا جس کی وجہ سے میرا چہرہ چھت کی طرف اٹھ گیا۔ کوئی پندرہ منٹ تک مجھے اسی طرح چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور ہمیں کھینچ کر بستر پر لے گیا۔ بستر پر گھٹنوں کے بل ہم دونوں کو قریب قریب چوپایا بنا دیا۔ پھر وہ کچھ دیر عاشی کو چودتا کچھ دیر مجھے!
ہم دونوں کی گانڈ پر، پیٹھ پر تھپڑ مارتا، کاٹتا، کتنا درد دے رہا تھا اور چود رہا تھا وہ ہمیں۔ ہم دونوں کتیوں کی طرح اس سے چدوا رہی تھیں، مجھے درد ہو رہا تھا لیکن سکندر سے چدوانے میں اب مزا بھی آ رہا تھا۔
کافی دیر تک اسی طرح ہم دونوں سہیلیوں کی چدائی چلتی رہی۔ میں اور عاشی دونوں ہی جھڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیں چودتا رہا۔
کافی دیر بعد جب اس کے پانی کا نکلنے کا وقت ہوا تو اس نے ہم دونوں کو بستر پر بٹھا کر اپنے اپنے منہ کھول کر اس پانی کو منہ میں لینے کو کہا، ڈھیر سارا پانی میرے اور عاشی کے منہ میں بھر دیا۔ ہم دونوں کے منہ کھلے ہوئے تھے، ان میں سکندر کی منی بھری ہوئی تھی اور منہ سے چھلک کر ہمارے بوبس پر اور بدن پر گر رہی تھی۔
وہ ہمیں اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے کپڑے پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ کئی گھنٹوں تک عاشی میری تیمار داری کرتی رہی، جب تک میں چل سکنے کے قابل ہو گئی۔ پھر ہم کسی طرح گھر لوٹ آئے۔

ہم آٹو لے کر ہوٹل پارک ویو پہنچے، وہاں ہمیں سوٹ نمبر 205 کے سامنے پہنچا دیا گیا۔ عاشی نے ڈور بیل پر انگلی رکھی۔ بیل کی آواز ہوئی۔ کچھ دیر بعد دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ اس میں سے سکندر کا چہرہ نظر آیا۔
"گڈ گرل! " اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
مجھے لگا جیسے میں اس کے سامنے ننگی ہی کھڑی ہوں۔
"آؤ اندر آ جاؤ۔" اس نے دروازے کو تھوڑا سا کھول دیا۔
میں اندر آ گئی۔ میرے اندر آتے ہی دروازے کو بند کرنے لگا۔
عاشی نے آواز لگائی - سکندر، مجھے بھی تو آنے دو۔۔۔
"تیرا کیا کام ہے یہاں؟ تجھے پہلے ہی منع کیا تھا نا۔۔۔ چل بھاگ  جا یہاں سے! کل صبح آ کر اپنی اس رنڈی کو لے جانا! " کہہ کر بھک سے سکندر نے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے چاروں طرف دیکھا۔ اندر اندھیرا ہو رہا تھا۔ ایک آرائشی سپاٹ لائٹ کمرے کے بیچوں بیچ گول روشنی کا دائرہ بنا رہی تھی۔ کمرہ مکمل نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس نے میری بازو پکڑی اور کھنچتا ہوا اس روشنی کے دائرے میں لے گیا۔
"بڑی شیرنی بنتی ہے؟ آج تیرے دانت ایسے توڑوں گا کہ تیری قیمت دو ٹکے کی بھی نہیں رہ جائے گی۔"
میں اپنے آپ کو سمیٹے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔
اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے موٹے موٹے ہونٹ رکھ دیے۔ اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے میرے منہ میں داخل ہو گئی۔ اس کے منہ سے شراب کی تیز بدبو آ رہی تھی۔ شاید میرے آنے سے پہلے پی رہا ہو گا۔ وہ میرے منہ کا کوئی کونا اپنی زبان پھیرئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ ایک ہاتھ سے میرے بدن کو اپنے سینے پر بھینچے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ کو میری پیٹھ پر پھیر رہا تھا۔
اچانک میرے چوتڑوں کو پکڑ کر اس نے زور سے دبا دیا اور اپنے سے چپکا لیا۔ اب میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپر چپکا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میں اس کے چہرے کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے مجھے پل بھر کے لیے چھوڑا اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر کر دیا۔ میں سہمی سی ہاتھ اوپر کر کے کھڑی ہو گئی۔ اس نے قمیض کو میرے بدن سے الگ کر دیا، پھر میری برا میں ڈھکی دونوں چھاتیوں کو پکڑ کر زور سے مسل دیا۔
اور اتنی زور سے مسلا کہ میرے منہ سے "آآآآآآآہہہہ" نکل گئی۔ اس نے میری دونوں چوچیوں کے بیچ سے میری برا کو پکڑ کر زور سے ایک جھٹکا دیا۔ میری برا پھٹ کر دو حصوں میں الگ ہو گئی۔ اب میرے بریسٹس اس کی آنکھوں کے سامنے ننگے ہو گئے۔ اس نے میرے بدن سے میری پھٹی ہوئی برا کو اتار کر پھینک دیا اور دوبارہ میرے نپل کو پکڑ کر زور زور سے مسلنے لگا۔
"اووووہ اووفففف پلیز پلیز آہستہ کرو! '' میں نے درد سے تڑپتے ہوئے کہا۔
"کیوں بھول گئی اپنے تھپڑ کو حرامزادی؟ آج بھی میں بھولا نہیں ہوں وہ بے عزتی۔ آج تیری چوت کو ایسے پھاڑوں گا کہ تو کبھی اپنا سر اٹھا کر بات نہیں کر پائے گی۔ ساری زندگی میری رنڈی بن کر رہے گی!" یہ کہہ کر وہ میری ایک چھاتی کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا، چوس کیا کھا ہی رہا تھا میری ممے کو۔
اس نے میری شلوار کے ناڑے کو ایک جھٹکے میں توڑ دیا، شلوار سرسراتی ہوئی میرے قدموں پر ڈھیر ہو گئی۔
"میں ایسا ہی ہوں! جو بھی میرے سامنے کھلنے میں دیر لگاتی ہے، اسے میں توڑ دیتا ہوں۔" وہ بولے جا رہا تھا - سالی مادرچود! چانٹا مارا تھا نا تو نے مجھے! کتیا اب دیکھ سالی رنڈی!
اور پھر میرے ممے کو کچل کر میری چوت کو بھی مسلنے لگا، وہ نوچ رہا تھا مجھے! پھر اس نے میری ایک بازو پکڑ کر مروڑ دی۔
میں درد کے مارے پیچھے گھوم گئی۔
اس نے زمین سے میرا دوپٹہ اٹھا کر میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کرکے سختی سے باندھ دیا، لائٹ کا سوئچ آن کر دیا۔
پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔ سامنے صوفے پر ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔
"اسے تو تم پہچانتی ہو گی؟ میرا دوست سنی!"
سنی اٹھ کر پاس آ گیا، اس نے میرے بدن کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ میں نے جھک کر بچنے کی کوشش کی، سنی نے میرے بالوں کو پکڑ کر میرے چہرے کو اپنی طرف کھینچا، میرے چہرے کو اپنے پاس لا کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
سکندر میرے جسم کے نیچے کے حصوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ میری ران پر کبھی چٹکی کاٹتا تو کبھی چوت کے اوپر ہاتھ پھیرتا۔ پھر اس نے میری پینٹی کو بھی میرے جسم سے الگ کر دیا اور ایک ہی جھٹکے سے اپنی دو موٹی موٹی انگلیاں میری چوت میں ڈال دیں اور ایک انگلی میری گانڈ میں گھسیڑ دی۔ زندگی میں پہلی بار چوت اور گانڈ پر کسی بیرونی چیز کے دخول نے مجھے سسک اٹھنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ پہلی بار میرے بدن سے کوئی کھیل رہا تھا اس لیے میرا جسم گرم ہونے لگا، میرے دماغ کا کہنا اب میرا جسم نہیں مان رہا تھا۔" اب تجھے دکھاتے ہیں کہ لوڑا کسے کہتے ہیں۔" یہ کہہ کر وہ دونوں اپنے اپنے جسم پر سے کپڑے اتارنے لگے۔ دونوں بالکل ننگے ہو گئے۔ ان دونوں کے لوڑے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میری چوت کا چھید تو بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک انگلی ڈالنے سے بھی درد ہوتا تھا مگر ان دونوں کے لوڑوں کے گھیر تو میری مٹھی سے بھی موٹے تھے، گھبراہٹ سے میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
"پلیز مجھے جانے دو! " میں نے روتے ہوئے کہا۔
"ہم نے تو تجھے نہیں پکڑا! تو خود چل کر اس دروازے سے اندر آئی ہے ہم سے چدوانے کے لیے، اپنی مرضی سے! آئی ہے یا نہیں، بول؟ مادرچود!" یہ کہتے ہوئے سکندر نے میرے بال پکڑ کر میرے گال کی چمی لی۔
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔
"پھر اب کیوں انکار کر رہی ہے؟" اس نے میرے چوتڑوں پر ایک زوردار چپت لگائی اور بولا: تُو جا! میں بھی عاشی سے اپنے تعلقات توڑ دیتا ہوں۔ تجھے پتہ ہے عاشی پریگننٹ ہے؟ میرا بچہ ہے اس کے پیٹ میں! تیری مرضی ہے! تو چلی جا!" وہ بولے جا رہا تھا اور میری چوت، گانڈ، ممے، گال، جہاں اس کی مرضی ہو، مسلے جا رہا تھا۔
اس کی بات سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کی ہوا نکال دی ہو۔ میں نے ایک دم مزاحمت چھوڑ دی۔ سکندر نے مجھے گھٹنوں پر بیٹھنے کو کہا۔
میں بلا چوں چراں اس کے حکم کو مانتے ہوئے ان کے سامنے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں اپنے اپنے لنڈ میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگے، "لے انہیں چاٹ کتیا!" سکندر نے کہا، "کنجری، اپنا منہ کھول!"
میں نے اپنے منہ کو تھوڑا سا کھول دیا۔ سکندر نے اپنے لنڈ کو میرے منہ میں ڈال دیا، میرے سر کو پکڑ کر اپنے لنڈ کو اندر تک گھسا دیا۔ بہت ہی سخت گندی سی بدبو آئی، مجھے گھن سی آنے لگی۔
میں نے سنی کی جانب دیکھا تو معلوم ہوا کہ سنی کے ہاتھ میں سٹل کیمرا تھا۔ میں نے زبردستی سکندر کا لنڈ اپنے منہ سے نکالا اور اس کی منتیں کرنے لگی کہ پلیز میری تصویریں مت بناؤ، پلیز، جو تم کہو گے میں وہ کروں گی لیکن میری ایسی تصویریں مت بناؤ اور رونے لگی، میری منتوں کا سکندر پر الٹا اثر ہوا اور اس نے میرے گالوں پر تین چار کرارے تھپڑ رسید کر  دیے اور بولا: کنجری! چپ چاپ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتی رہ۔۔۔ منہ کھول حرامزادیا ور لوڑا چوس۔میں نے اس کے مزید تھپڑوں کے خوف سے روتے سسکتے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔
اب سکندر میرے منہ میں دھکا دھک اپنا لنڈ اندر باہر کر رہا تھا، وہ میرے بال پکڑ کر میرا منہ چود رہا تھا۔
کچھ دیر اس طرح میرے منہ کو چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا۔ اس کی جگہ سنی نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر وہی ہونے لگا جو پہلے ہو رہا تھا۔ میرے جبڑے درد کرنے لگے۔ زبان بھی کھردری ہو گئی تھی۔
"چل کمینی، اپنا منہ اور کھول اور ہم دونوں اپنا لنڈ ایک ساتھ ڈالیں گے۔"
میں سوچنے لگی کہ میرے منہ میں ایک ساتھ دو موسل جا سکتے ہیں کیا؟ دونوں اپنے اپنے لنڈ کو زور لگا رہے تھے اندر ڈالنے کے لیے!
سکندر نے میری چوت میں اپنے پیر کا انگوٹھا بھی پھنسا دیا تھا۔ سکندر نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا مگر سنی باہر گالوں پر ہی پھیرتا رہ گیا، اس کا لنڈ منہ کے اندر آدھا ہی جا کر رہ جاتا تھا، وہ اسے پورا اندر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
اب سکندر مجھے کھینچ کر بستر پر لے گیا اور وہ دونوں میرے سر کو کھینچ کر بیڈ کے کونے تک لے آئے۔ اس طرح کہ میرا سر بستر سے نیچے جھول رہا تھا۔ اب اس نے میرا سر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنا لنڈ اندر ڈالنا شروع کیا۔ اب لنڈ کو گلے کے اندر تک ڈال دیا، لنڈ پورا سما گیا تھا، اس کی جھانٹیں میرے نتھنوں میں گھس رہی تھیں، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔
"ارے سکندر، ایسے مت ٹھوک اسے! " سنی جو میری تصاویر لے رہا تھا، اس نے کہا۔
یہ سن کر سکندر نے اپنا لنڈ تھوڑا باہر کھینچا، پھر کچھ دیر تک میرے منہ میں اپنا تھوک ڈال ڈال کے میرے منہ کو چوت کی طرح چودنے کے بعد مجھے بستر پر چت لٹا دیا۔ اب وہ بھی بستر پر چڑھ گیا اور میری ٹانگیں پھیلا دیں۔ جتنا ہو سکتا تھا اتنا پھیلا کر ہاتھوں سے پکڑے رکھا۔
"ابے اب کے پاس آ کر کلوز اپ لے! ایک ایک حرکت کی تصویریں کھینچ! ابھی اس کی چوت سے خون بھی ٹپکے گا۔ سب کیمرے میں آنا چاہیے! " اس نے سنی کو کہا۔
سنی میری چوت کے ہونٹوں کے درمیان ملحقہ سکندر کے لنڈ کی تصویریں لینے لگا۔
سکندر اب دھیرے دھیرے میری چوت پر اپنے لنڈ کا دباؤ ڈالنے لگا۔۔۔ مگر اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ اندر ہی نہیں گھس پا رہا تھا۔ اس لنڈ سے نکلے پری کم سے اور کچھ میرے رس سے چوت کا چھید کافی ہموار ہو رہا تھا۔ وہ لنڈ پر دباؤ بھی بڑھاتا گیا مگر بار بار اس کا لنڈ پھسل جاتا تھا۔ "تیل لاؤں؟" سنی نے پوچھا۔
"ابے تیل لگانے سے تو آرام سے اندر چلا جائے گا۔ پھر کیا خاک مزہ آئے گا۔" اس بار اس نے اپنی انگلیوں سے میری چوت کے منہ کو پھیلا کر اپنے لنڈ کے ٹوپے کو وہاں لگایا اور اپنے جسم کا پورا وزن میرے اوپر ڈال دیا۔ اس کا لنڈ میری چوت کی دیواروں کو چھیلتا ہوا اندر گھسنے لگا اور میرے کنوارے پن کی جھلی پر جا کر ایک بار رک گیا۔
مجھے زور سے درد ہوا - اووووہ آآآآآہہہہ اوہہہہ ماں آ آآ آہہ مر گئی۔ اوہ نہیییں!
اگلے جھٹکے میں میرے کنوارے پن کو توڑتے ہوئے سکندر کا لنڈ پورا اندر گھس گیا۔ اگر چوت میں کوئی تیل لگایا ہوتا تو اتنا درد نہیں ہوتا لیکن مجھے درد سے چلاتے دیکھ کر اسے بہت مزا آ رہا تھا۔ اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ میری نازک چوت کی چمڑی اس کے لنڈ پر چپک سی گئی تھی۔
کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد جیسے ہی وہ اپنے لنڈ کو باہر کھینچنے لگا تو ایسا لگا کہ میری بچہ دانی بھی لنڈ کے ساتھ باہر آ جائے گی۔ اس نے اپنے لنڈ کو مکمل باہر نکالا اور میرے سامنے لے کر آیا۔ اس کے لنڈ پر میرے خون کے قطرے لگے ہوئے تھے۔ میری چوت سے خون رِس کر بستر پر ٹپک رہا تھا۔ "دیکھ مادرچود! تیری چوت کو آج پھاڑ ہی دیا نا۔ لے اسے چاٹ کر صاف کر کتیا! " میں نے گھن سے آنکھیں بند کر لی۔ مگر وہ ماننے والا تو تھا نہیں، اس نے میرے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور میں نے آنکھیں بند کیے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔ اس نے اپنا لنڈ جڑ تک میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر اس نے میرے منہ سے نکال کر دوبارہ اپنا لنڈ میری چوت میں گھسیڑ دیا اور تیز تیز دھکے مارنے لگا۔ اس کے ہر دھکے سے میری جان نکل رہی تھی۔ لیکن کچھ ہی دیر میں درد ختم ہو گیا اور مجھے بھی مزا آنے لگا۔ میں بھی نیچے سے اپنی کمر اچھالنے لگی۔ آدھے گھنٹے تک وہ اسی طرح بے دردی سے مجھے چودتا رہا۔ اس دوران میرا تین بار پانی جھڑ گیا تھا۔
اس کے بعد اس نے مجھے اٹھا کر اپنے اوپر بٹھا لیا، میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کرکے اس پر بیٹھ گئی۔ اس کا لنڈ پورا میری چوت کے اندر چلا گیا۔ اس کے سینے پر گھنے بال تھے جنہیں میں اپنے ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی کمر اوپر نیچے کر رہی تھی۔ میرے دونوں چوچیاں اوپر نیچے اچھل رہی تھیں۔
سنی سے برداشت نہیں ہوا، اس نے بستر پر کھڑے ہو کر میرے منہ میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ میں اس کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ اس طرح دونوں سے چدواتے ہوئے میں ایک بار پھر جھڑ گئی۔ سکندر میری چھاتیوں سے کھیل کر مجھے خوش کر رہا تھا۔ سنی اتنا وحشی تھا کہ اس کا لنڈ تھوڑی ہی دیر میں تن گیا اور ڈھیر ساری منی سے اس نے میرا منہ بھر دیا۔ مجھے گھن سی آ گئی۔ میں نے سارا پانی بستر پر ہی الٹ دیا۔
سنی اب گہری سانسیں لے رہا تھا مگر سکندر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس پوزیشن میں بھی وہ مجھے پندرہ منٹ تک چودتا رہا۔
"پلیز اب بس کرو، میں تھک گئی ہوں۔ اب مجھ سے اوپر نیچے نہیں ہوا جا رہا۔" میں نے اس سے منت کی۔
مگر وہ کچھ بھی نہیں بولا لیکن اگلے پانچ منٹ میں اس کا بدن سخت ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میرے چھاتیوں میں گڑ گئے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب زیادہ دیر کا مہمان نہیں ہے۔ اس نے میرے نپلز پکڑ کر اپنی طرف کھینچے، میں اس کے سینے پر لیٹ گئی۔ اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایسا لگا گویا ایک گرم دھار میرے اندر گر رہی ہو۔
اب ہم ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے ہوئے تھے، میرا پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ اے سی چل رہا تھا مگر اس کے باوجود بھی میں پسینے سے نہا گئی تھی۔
پہلی بار میں ہی اتنی زبردست چدائی نے میرے سارے اعضاء ڈھیلے کر دیے تھے۔۔۔ ایک ایک حصہ میرا دکھ رہا تھا۔ میں نے کسی طرح اٹھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس آدھا پیا اور آدھا اپنے چہرے پر ڈال لیا۔
تھوڑی دیر بعد سنی اٹھا اور مجھے ہاتھوں پیروں کے بل بستر پر جھکایا اور خود بستر کے نیچے کھڑے ہو کر میری چوت میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ وہ زور زور سے مجھے پیچھے کی طرف سے ٹھوکنے لگا۔ میرے چہرے کو پکڑ کر سکندر نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ پر دبا دیا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس کے ڈھیلے لنڈ کو اپنے زبان کو نکال کر چاٹنے لگی۔ میں پورے لنڈ کو اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سکندر کا لنڈ دھیرے دھیرے کھڑا ہونے لگا۔ اب وہ میرے بالوں سے مجھے پکڑ کر اپنے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگا۔ کافی دیر تک مجھے چودنے کے بعد سنی نے اپنا پانی چوت میں ڈال دیا۔۔۔
سکندر نے مجھے اٹھا کر زمین پر پیر چوڑا کر کے کھڑا کیا اور بستر کے کنارے بیٹھ کر مجھے اپنی گود میں دونوں طرف پیر کرکے بٹھا لیا۔ اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا۔ میں اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے جسم کو اس کے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگی۔ کچھ دیر تک اسی طرح چودنے کے بعد وہ ایک بار پھر میرے اندر فارغ ہو گیا۔ اس بار میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ جھڑ گئے۔
سنی نے کھانا منگوا لیا تھا۔ ہم اسی طرح ننگی حالت میں ڈنر کرتے ہوئے واپس بستر پر آ گئے۔ مجھ سے تو کچھ کھایا ہی نہیں گیا۔ سارا بدن لجلجا ہو رہا تھا۔ دونوں نے مجھے اب تک اپنا بدن صاف بھی نہیں کرنے دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد میں ان کا سہارا لے کر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ پورے بستر پر خون کے کچھ دھبے لگے ہوئے تھے۔ میں سنی کے کندھے کا سہارا لے کر باتھ روم میں گئی۔۔۔ لیکن وہاں بھی انہوں نے دروازہ بند نہیں کرنے دیا۔ سکندر میری گانڈ اور چوت سے کھیل رہا تھا، میں پیشاب کر رہی تھی اور تب بھی سکندر چوت میں انگلی آگے پیچھے کر رہا تھا، کاٹ رہا تھا میری گانڈ اور رانوں کو اور سنی تصویریں بنا رہا تھا!
میں ان دونوں کی موجودگی میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ واپس بستر پر آکر کچھ دیر تک دونوں میرے ایک ایک انگ سے کھیلتے رہے۔ میری اسی ننگی حالت میں مختلف پوز میں کئی تصویریں کھینچیں، پھر میری چدائی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ دور کافی دیر تک چلتا رہا۔ اس بار سنی نے مجھے اپنے اوپر بٹھایا اور اپنا لنڈ اندر ڈال دیا۔ اس حالت میں اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے چپکا لیا، میرے دونوں پیر گھٹنوں سے مڑے ہوئے تھے اس لیے میری گانڈ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔ سکندر نے میری چدتی ہوئی چوت میں ایک انگلی ڈال کر ہمارے رس کو باہر نکالا اور میری گانڈ پر لگا دیا۔ ایک انگلی سے میری گانڈ میں اندر تک اس رس کو لگانے لگا۔
میں اس کا مطلب سمجھ کر اٹھنا چاہتی تھی۔ مگر دونوں نے مجھے ہلنے بھی نہیں دیا۔ سکندر نے اپنی انگلی نکال کر میرے چوتڑوں کو اپنے ہاتھوں سے الگ کیا اور میری گانڈ کے سوراخ پر اپنا لنڈ لگا دیا اور آہستہ سے اپنا لنڈ اندر ھکیلا۔ ایسا لگا گویا کوئی میری گانڈ کو ڈنڈے سے پھاڑ رہا ہو، میں "آ آآ اایی ییی اوووووووووہ مممی مماااااااا اییایا بچااااااؤؤؤ" جیسی آوازیں نکالنے لگی۔ مگر اس کا لنڈ کے آگے کا موٹا حصہ اب اندر جا چکا تھا۔ میں نے درد سے اپنے ہونٹ کاٹ لیے مگر وہ آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مکمل اندر ڈالنے کے بعد ہی وہ رکا۔
پھر دونوں میرے چلانے کی پرواہ کیے بغیر ہی دھکے مارنے لگے۔ اوپر سے سکندر دھکا مارتا تو سنی کا لنڈ میری چوت میں گھس جاتا۔ جب سکندر اپنا لنڈ باہر نکالتا تو میں اس کے لنڈ کے ساتھ تھوڑا اوپر اٹھتی اور سنی کا لنڈ باہر کی طرف آ جاتا۔ اسی طرح مجھے کافی دیر تک دونوں نے چودا پھر ایک ساتھ دونوں نے میرے دونوں چھیدوں میں اپنا اپنا پانی ڈال دیا۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی جھڑ گئی۔
رات بھر کئی دور ہوئے مختلف پوز میں، میں تو گنتی ہی بھول گئی۔
تقریبا چار بجے کے قریب ہم ایک ہی بستر پر آپس میں لپٹ کر سو گئے۔

میں صائمہ ہوں، 30 سال کی بہت ہی خوبصورت عورت، میرے شوہر دانش بزنس مین ہیں۔ میں آپ کو اس واقعہ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو آج سے کوئی دس سال پہلے پیش آیا تھا، اس واقعے نے میری زندگی ہی بدل دی۔۔۔
میرے جسمانی تعلقات میری سہیلی کے شوہر سے ہیں اور اس کے لیے وہی قصوروار ہے۔ میرے دو بچوں میں سے ایک کا باپ دانش نہیں بلکہ میری سہیلی کا شوہر ہے۔
اس وقت میں پڑھائی کر رہی تھی۔ میری ایک پیاری سی سہیلی ہے، نام ہے عاشی۔ ویسے آج کل وہ میری نند ہے، دانش عاشی کا ہی بھائی ہے، عاشی کے بھائی سے شادی کرنے کے لیے مجھے ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہم دونوں کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، ہماری جوڑی بہت مشہور تھی، ہم دونوں ہی بہت خوبصورت اور چھریرے بدن کی مالک تھیں، بدن کے کٹاؤ بڑے ہی سیکسی تھے، میری چھاتیاں  عاشی سے بھی بڑی تھیں لیکن ایک دم ٹائٹ۔
ہم اکثر ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ میرا عاشی کے گھر جانے کا مقصد ایک اور بھی تھا، اس کا بھائی دانش۔ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، اس وقت وہ بی ٹیک کر رہا تھا۔ بہت ہینڈسم اور خوبصورت بدن  کا مالک ہے دانش! میں اس سے دل ہی دل محبت کرنے لگی تھی۔ دانش بھی شاید مجھے پسند کرتا تھا۔ لیکن منہ سے کبھی کہا نہیں۔ میں نے اپنا دل عاشی کے سامنے کھول دیا تھا۔ ہم آپس میں لڑکوں کی باتیں بھی کرتے تھے۔
مصیبت تب آئی جب عاشی سکندر کی محبت میں پڑ گئی۔ سکندر کالج یونین کا لیڈر تھا۔ اس میں ہر طرح کی بری عادتیں تھی۔ وہ ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا۔۔۔ اس کے والد ایک مشہور صنعت کار تھے، کھلی کمائی تھی اور بیٹا اس کمائی کو اپنی عیاشی میں خرچ کر رہا تھا، دو سال سے فیل ہو رہا تھا۔
سکندر مجھ پر بھی گندی نظر رکھتا تھا پر میں اس سے بری طرح نفرت کرتی تھی، میں نے اس سے دور ہی رہتی تھی۔ عاشی پتہ نہیں کس طرح اس کی محبت میں پڑ گئی۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے کافی منع کیا لیکن اس نے میری بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ تو سکندر کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔
ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ سکندر سے جسمانی تعلق بھی قائم ہو چکا  ہے۔ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا مگر وہ تھی گویا چکنا گھڑا اس پر کوئی بھی بات اثر نہیں کر رہی تھی۔
ایک دن میں اکیلی سٹوڈنٹ روم میں بیٹھی کچھ تیاری کر رہی تھی، اچانک سکندر وہاں آ گیا اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنا سر گھما لیا۔ اس نے مجھے باہوں سے پکڑ کر اٹھا دیا۔
میں نے کہا: کیا بات ہے؟ کیوں پریشان کر رہے ہو؟
سکندر بولا - تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
"میں تیرے جیسے آدمی کے منہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی! " میں نے کہا، تو وہ غصے سے تلملا گیا۔ اس نے مجھے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا اور تپاک سے ایک چما میرے ہونٹوں پر دے دیا۔
میں ایک دم ہکی بکی رہ گئی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی پبلک مقام پر ایسا بھی کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سنبھلتی، اس نے میرے دونوں ممے پکڑ کر مسل دیے، میرے نپلز انگلیوں میں بھر کے کھینچ لیے اور قمیض کے اوپر سے ہی منہ لگا کر دانت سے کاٹ لیا۔ میں فورا وہاں سے جانے لگی تو اس نے شلوار کے اوپر سے ہی میرے چوتڑ پکڑ کر مجھے اپنے بدن کے ساتھ چپکا لیا، مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا موٹا لنڈ پیچھے سے میری رانوں میں سے گزر کر میری چوت پر گڑا جا رہا تھا۔
میں نے کہا: مجھے کوئی بازاری لڑکی مت سمجھنا، جو تیری بانہوں میں آ جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں نے گھوم کر اس کے منہ پر ایک چانٹا جما دیا۔
تبھی کسی کے قدموں کی آواز سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔
اس کے بعد سارا دن موڈ خراب رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی میری چوچیوں کو مسل رہا ہو، بہت غصہ آ رہا تھا۔ دونوں چھاتیاں چھونے سے ہی درد کر رہی تھیں۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنے کمرے میں آ کر جب کپڑے اتار کر اپنی گوری گوری چھاتیوں کو دیکھا تو رونا ہی آ گیا، گوری چھاتیوں پر مسلے جانے سے نیلے نیلے نشان پڑے صاف نظر آ رہے تھے۔
شام کو عاشی آئی: آج سنا ہے تم سکندر سے لڑ پڑیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا: لڑ پڑی؟ میں نے اسے ایک جم کر چانٹا مارا۔ اور اگر وہ اب بھی نہیں سدھرا تو میں اس کا چپلوں سے استقبال کروں گی۔۔۔ سالا لوفر!
عاشی: ارے کیوں غصہ کرتی ہو۔ تھوڑا سا اگر چھیڑ ہی دیا تو اس طرح کیوں بگڑ رہی ہے؟ وہ تیرا ہونے والا نندوئی ہے۔ رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ تو چلتی ہی رہتی ہے۔
میں: تھوڑی چھیڑ چھاڑ مائی فٹ! دیکھے گی، کیا کیا اس تیرے آوارہ عاشق نے؟ میں نے یہ کہہ کر اپنی قمیض اوپر کرکے اسے اپنی چھاتیاں دکھائیں۔
عاشی: چچچ۔۔۔ کتنی بری طرح مسلا ہے سکندر نے! وہ ہنس رہی تھی۔ مجھے غصہ آ گیا مگر اس کی منتوں سے میں آخر ہنس دی۔ لیکن میں نے اس کہہ دیا کہ آپ اس آوارہ عاشق کو کہہ دینا میرے چکر میں مت رہے۔ میرے آگے اس کی نہیں چلنی!
بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ عاشی کچھ اداس رہنے لگی ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے نہیں بتایا۔ مجھ سے اس کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا:  صائمہ، تیرے پریمی کے لیے لڑکی ڈھونڈی جا رہی ہے۔
میں تو گویا آسمان سے زمین پر گر پڑی "کیا۔۔۔ ؟؟؟"
"ہاں صائمہ! بھیا کے لیے رشتے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جلدی کچھ کر، نہیں تو اسے کوئی اور لے جائے گی اور تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔
"لیکن میں کیا کروں؟"
"تو بھیا سے بات کر!"
میں نے دانش سے بات کی۔
لیکن وہ اپنے ممی پاپا کو سمجھانے میں ناکام تھا۔ مجھے تو ہر طرف اندھیرا ہی دکھ رہا تھا۔ تبھی عاشی ایک روشنی کی طرح آئی۔۔۔
"بڑی جلدی گھبرا گئی؟ ارے ہمت سے کام لے!"
"مگر میں کیا کروں؟ دانش بھی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔"
"میں تیری شادی دانش سے کروا سکتی ہوں۔" عاشی نے کہا تو میں اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"لیکن۔۔۔ کیوں؟"
"کیوں؟ میں تیری سہیلی ہوں ہم دونوں زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسم کھاتے تھے۔ بھول گئی؟"
"مجھے یاد ہے سب، لیکن تجھے بھی یاد ہے یا نہیں، میں یہ دیکھ رہی تھی۔"
اس نے کہا: میں ممی پاپا کو منا لوں گی تمہاری شادی کے لیے مگر اس کے بدلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا!
"ہاں ہاں، بول نا! کیا چاہتی ہے مجھ سے؟" مجھے لگا جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔
"دیکھ تجھے تو معلوم ہی ہے کہ میں اور سکندر ساری حدود پار کر چکے ہیں، میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔" اس نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا۔۔۔ "تو میری شادی سکندر سے کروا دے، میں تیری شادی دانش سے کروا دوں گی!"
میں نے گھبراتے ہوئے کہا: میں تیرے ممی پاپا سے بات چلا کر دیکھوں گی۔
عاشی بولی: ارے، میرے ممی پاپا کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام تو میں خود ہی کر لوں گی!
"پھر کیا پریشانی ہے تیری؟"
"سکندر۔۔۔! " اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، "سکندر نے مجھ سے شادی کرنے کی ایک شرط رکھی ہے۔"
"کیا؟" میں نے پوچھا۔
"تم! " اس نے کہا تو میں اچھل پڑی، "کیا؟۔۔۔ کیا کہا؟" میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"ہاں، اس نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے تبھی شادی کر سکتا ہے جب میں تجھے اس کے پاس لے جاؤں۔"
"اور تُو نے۔۔۔ تُو نے مان لیا؟" میں چلّائی۔
"آہستہ بول، ممی کو پتہ چل جائے گا۔ وہ تجھے ایک بار پیار کرنا چاہتا ہے، میں نے اسے بہت سمجھایا مگر اسے منانا میرے بس میں نہیں ہے۔"
"تجھے معلوم ہے کہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟" میں نے غرّا کر اس سے پوچھا۔
"ہاں! میں اپنی پیاری سہیلی سے اپنے پیار کی بھیک مانگ رہی ہوں۔۔۔ تُو سکندر کے پاس چلی جا، میں تجھے اپنی بھابھی بنا لوں گی!"
میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکلی۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
عاشی نے کہا: اگر تو نے مجھے مایوس کیا تو میں بھی تجھے کوئی ہیلپ نہیں کروں گی۔
میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر گھر چلی آئی۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔
دانش کے بغیر میں نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے اپنی سب سے بڑی دولت گنوانی پڑ رہی تھی۔
رات کو کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ صبح میں نے ایک فیصلہ کر لیا۔ میں عاشی سے ملی اور کہا، "ٹھیک ہے، تم جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ سکندر کو کہنا کہ میں تیار ہوں۔" وہ سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑی۔
"لیکن صرف ایک بار! اور ہاں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ایک بات اور۔۔۔"
عاشی نے کہا: ہاں بول جان! تیرے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔"
"اس کے بعد تو میری شادی اپنے بھائی سے کروا دے گی اور تیری شادی ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں ہوں۔" میں نے اس سے کہا۔
وہ تو اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ عاشی نے اگلے دن مجھے بتایا کہ سکندر مجھے ہوٹل پارک ویو میں ملے گا۔ وہاں اس کا سویٹ بک ہے۔ ہفتہ شام 8 بجے وہاں پہنچنا تھا۔ عاشی نے میرے گھر پر چل کر میری امی سے بات کر کے مجھے ہفتے کی رات اپنے گھر رکنے کے لیے منا لیا۔
میں چپ رہی۔ ہفتہ کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا برا حال ہو رہا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں ٹھیک کر رہی ہوں یا نہیں۔ ہفتہ کی صبح سے ہی میں کمرے سے باہر نہیں نکلی، شام کو عاشی آئی، اس نے امی کو منایا مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے، اس نے امی سے کہا کہ ہم دونوں سہیلیاں رات بھر پڑھائی کریں گی اور میں ان کے گھر رات کو رک جاؤں گی۔
اس نے بتا دیا کہ وہ مجھے اتوار کو چھوڑ جائے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ مجھے سنیچر کی رات اس کے ساتھ نہیں بلکہ اس آوارہ بدمعاش سکندر کے ساتھ گزارنی تھی۔
ہم دونوں تیار ہوکر نکلے۔ میں نے ہلکا سا میک اپ کیا۔ ایک سادہ سا کرتہ پہن کر نکلنا چاہتی تھی مگر عاشی مجھ سے الجھ پڑی، اس نے مجھے خوب سجایا سنوارا۔
پھر ہم نکلے۔ وہاں سے نکلتے نکلتے شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔
"عاشی، مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ مجھے بہت ذلیل کرے گا۔ پتہ نہیں میری کیا حالت بنائے!" میں نے عاشی کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں، میرا سکندر  ایسا نہیں ہے!"
میں نے کہا: ایسا نہیں ہے؟ سالا لوفر! میں جانتی ہوں کتنی لڑکیوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ تو وہاں میرے ساتھ رہے گی۔ رات کو تو بھی وہیں رکے گی۔
"نہیں! میں نہیں جاؤں گی۔"
"نہیں نہیں، تو میرے ساتھ ہی رہے گی۔"
"نہیں نا جان! سکندر نے منع کیا ہے مجھے ساتھ رکنے سے۔۔۔ لیکن تو گھبرا مت، میں اسے سمجھا دوں گی۔ وہ تیرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے گا۔"

یہ کہانی بھی میرے ایک دوست شکیل کی ہے، اس کے کہنے پر ہی میں نے لکھ کر بھیجی ہے۔ اسی کے الفاظ میں پیش ہے۔۔۔

آج سے تقریبا 6 سال پہلے کی بات ہے جب میں اپنی آپا ثمینہ سے ملنے کے لئے کراچی  گیا تھا۔ میری آپا کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کا نام شاہد اور بیٹی کا نام مشعل ہے۔
میں صبح والی ٹرین سے چلا تھا اور شام کو قریب 6 بجے اپنی آپا کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا وہ، دن میں گرمی لیکن شام خوشگوار ہو جاتی تھی۔
جب میں وہاں پہنچا تو سب لوگ بہت خوش ہوئے۔ میری آپا کے بچے شاہد اور مشعل مجھے بہت پیار کرتے تھے، خاص طور پر مشعل، وہ کہتی تھی ماموں تو اور بھی ہیں لیکن جتنا آپ ہنسی مذاق کرتے ہو، اور کوئی نہیں کرتا۔
پچھلی بار تین سال پہلے آیا تھا تب وہ میرے ساتھ ہی لگی رہتی تھی اور سونے کی ضد بھی میرے ساتھ ہی کرتی تھی۔
گھر میں دیکھا تو مشعل نہیں دکھائی دی، میں نے آپا سے پوچھا مشعل نہیں دکھائی دے رہی؟
تب آپا نے بتایا وہ ٹیوشن پڑھنے گئی ہے، اور تقریبا ایک گھنٹے میں آ جائے گی۔
میں گیسٹ روم میں چلا گیا اور دن بھر کی تھکان اتارنے لگا، اونگھ بھی گیا تھا۔ تبھی مجھے مشعل کی آواز سنائی دی، وہ واپس آ گئی تھی۔
اس نے پوچھا بڑی چہل قدمی ہے۔۔۔ کیا کوئی بات ہے؟
شاہد نے کہا ماموں جان آئے ہیں۔
مشعل اچھل کر بولی واقعی؟ ماموں کہاں ہیں؟
'کمرے میں ہیں، لیٹے ہیں۔ '
مشعل نے خوشی سے اپنا بیگ پھینکا اور دوڑتی ہوئی میرے کمرے میں گھس آئی اور 'ماموں' کہتے ہوئے میرے گلے لگ گئی اور میرے اوپر گر گئی۔
میں چاہ کر بھی اٹھ بھی نہیں پایا، میں تھوڑا ہچکچا بھی گیا تھا، اس سے پہلے میں کچھ کہتا اس نے سوال داغ دیا: '' ماموں آپ کو اب فرصت مل گئی؟ اتنے دنوں سے کہہ رہے تھے کہ آپ آ رہے ہیں۔۔۔ آ رہے ہیں۔۔۔ اور اب آئے؟
میں بھونچکا رہ گیا تھا۔ تین سال پہلے جس کو میں نے دیکھا تھا وہ بالکل بچی تھی اور اب جو مشعل میرے بدن کے اوپر پڑی تھی وہ تو کافی بڑی ہو گئی تھی۔ مشعل بے حد خوبصورت لگ رہی تھی اور اس کے جسم سے ابھرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے مگر نوکیلے اور سخت پستان میرے سینے سے رگڑ رہے تھے۔ صحیح کہہ رہا ہوں، اس کی چھوٹی چھوٹی چوچیوں کا رگڑنا مجھ میں ایک ہوس کا سیلاب لے آیا، میں نے اس کو پیار سے اس کی پیشانی کو چوما اور کہا ارے ے ے ے، کم سے کم آ تو گیا!
میرا بایاں ہاتھ اس کے پیٹ پر تھا اور نادانستہ طور پر آہستہ آہستہ اسے  سہلانے لگا تھا جس کے باعث اور ایک لہر سی  میرے اندر دوڑ گئی، مجھے خود سے بڑی شرم آئی، مشعل میری بھانجی تھی، پر اس نے میرے اندر پلتی ہوئی ہوس کو کہیں بہت تیزی سے جگا دیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں میں نے اپنے ہوش پر قابو کیا، اپنے آپ کو کوسا اور اس کو اپنے اوپر سے اٹھاتے ہوئے کہا جاؤ، میرے لئے پانی لے آؤ۔
اس نے چہکتے ہوئے کہا ماموں، ابھی لائی۔
اور وہ کمرے کے باہر چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا اس ہلچل کی جو میرے اندر ہونے لگی تھی جب وہ میرے اوپر گری تھی۔ مجھ کو اپنے پر شرم آ رہی تھی کہ مشعل تو اب بھی بچی بن کر مجھ سے مل رہی تھی لیکن میں اس کے ملنے کے طریقے سے، اس کے جسم کو اپنے سے مسلتا  پاکر بالکل ہی بے چین ہو گیا تھا، میرا لنڈ بھی پتلون کے اندر کسمسا کر سخت ہو گیا تھا۔
میں اپنی انہی الجھنوں میں گھرا ہوا باہر نکل آیا اور سب سے مل کر باتیں کرنے لگا۔ بات کرتے کرتے اور کھانا کھاتے رات کے نو بج گئے۔ رات میں بتی اکثر چلی جاتی تھی اس لئے سب نے چارپائیاں باہر برآمدے میں نکال لی تھیں۔
ہم لوگ ان پر لیٹ گئے اور لیٹتے ہی بجلی چلی گئی۔ شاہد اور مشعل کی کو آدھی ادھوری نیند اکھڑ گئی اور کہنے لگی: ماموں، کچھ سناؤ، نہیں تو ایسے نیند نہیں آنے والی!
مجھے بھی نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے میں بھی ان کو کہانیاں قصے سنانے لگا اور وہ لوگ بھی اپنی چارپائی چھوڑ میرے ارد گرد  آ گئے۔
مشعل میرے سر کے پاس  آ کر بیٹھ گئی اور جب میں کہانی سنا رہا تھا، مشعل میرے سر پر ہاتھ پھیرنے اور دبانے لگی۔
وہ سر دبا رہی تھی اور میں بے چین ہونے لگا تھا، مجھے اس دھندلے اندھیرے میں وہ صاف دکھ رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے اس کے ابھرتی ہوئی ٹیبل ٹینس کی گیندوں جتنی چوچیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد میں جب اپنے لنڈ کے کڑے پن سے پریشان ہو گیا تب میں نے اس کے ہاتھ کو ہٹانے کے لئے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اس کوشش میں میرا ہاتھ اس کے ابھاروں سے ٹکرا گیا، ایک کرنٹ سا لگ گیا مجھے، میں پتھر سا اپنا ہاتھ وہیں رکھے رہا اور اس کی چوچی سانس لینے سے ہلتے ہے میرے ہاتھ سے ٹکراتی رہی۔
مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی لیکن میرا من اس جگہ سے ہٹانے کا بھی نہیں کر رہا تھا۔
تبھی مشعل نے دوسرے ہاتھ کو میرے اس ہاتھ پر رکھ دیا اور میرا ہاتھ اس کے ہاتھ اور اس کی چوچی کے درمیان قید ہو گیا اور اب اس کی چھوٹی سے چوچی مکمل طور پر میرے ہاتھ کو دباؤ دینے لگی تھی کیونکہ لائٹ نہیں تھی، اس لئے کسی کو بھی احساس نہیں تھا کہ میرا ہاتھ مشعل کی چوچیوں  سے اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔
اب میرے اندر ہوس عروج پر چڑھ چکی تھی اور اس نے مجھے ماموں سے ایک جوان مرد بنا دیا تھا اور مشعل کی چوچی مجھے صرف ایک لڑکی بلاوا دیتی ہوئی لگ رہی تھی۔
میرے ہاتھ کا اس کے ہاتھ کا دبانا مجھے حوصلہ دے گیا، میں نے اپنے ہاتھ کے پنجوں کو ڈھیل دی اور اس کی چھوٹی چوچیوں کو ہولے ہولے دبانے لگا۔
میں جیسے جیسے اس کی چوچیاں دباتا، مشعل میرا سر اور تیزی سے دبانے لگتی۔
اسی دوران آپا کی آواز آئی اور میں نے گھبرا کر اپنا ہاتھ تیزی سے اس کی چوچیوں سے ہٹا لیا۔
آپا نے کہا: شکیل، آپ دودھ پیو گے؟
میں نے کہا: نہیں، مجھے نہیں چاہیے۔
انہیں کہاں پتہ تھا کہ آج ان کا بھائی ان  کی نئی نئی جون ہوتی بیٹی کا دودھ پینے لے لئے پگلا گیا ہے۔
میں نے ہاتھ جب نیچے کھینچا تھ، تب میرا ہاتھ میری بھانجی کے پیٹ پر آ گیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہاں سے کپڑا تھوڑا ادھڑا ہوا تھا اور میرا ہاتھ مشعل کے ننگے پیٹ سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نے اس ننگی جگہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کے تھوڑے سے ننگے بدن پر ہاتھ رکھ کر مجھے عجیب سی گرمی لگی اور ڈر کے مارے چوہا ہوا لنڈ پھر سے گرما کر سخت ہو گیا۔
میں مشعل کے ننگے پیٹ کو آہستہ سے سہلانے لگا، میں جانتا تھا کہ جو کر رہا ہوں وہ خطرناک ہے لیکن پتہ نہیں ہوس نے میری سب عقل سمجھ چھین لی تھی۔
میری بھانجی مشعل بالکل پتھر بنی بیٹھی تھی، اس کی سانس لمبی اور سسکیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی، بجلی ابھی بھی نہیں آئی تھی اور میں اس کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔
تبھی اندھیرے میں آپا کی آواز آئی: بجلی اب کب آئے گی، پتہ نہیں! دس سے اوپر کا وقت ہو گیا ہے، چلو اب سب سو جاؤ۔ ہم لوگ اندر جا رہے ہیں۔ مشعل چل آ کر سو جا!
میرے تو ہوش اڑ گئے! سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا! صحیح کہہ رہا ہوں میں، بالکل سانس روکے لیٹے رہا، میرا ہاتھ جہاں تھا وہیں رک کے رہ گیا۔
ایک دم سے مشعل پھسپھسائی: ماموں، آپ امی کو کہو نا کہ مشعل سو گئی ہے۔
میں چونک گیا اور فوری طور پر آواز اونچی کرکے بولا: آپا، مشعل سو گئی ہے۔
آپا بولی: یہ تجھے رات بھر نہیں سونے دے گی، ساری رات لاتیں مارتی ہے، تو تھکا ہوا ہو گا۔
میں نے کہا: کوئی بات نہیں، پہلے بھی تو ساتھ میں سوتی تھی، سو گئی ہے تو سونے دو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔
آپا نے آواز لگائی: ٹھیک ہے لیکن دیکھنا اگر تنگ کرے تو اندر بھیج دینا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے آپا، اگر نیند میں خلل پڑے گا تو میں بھیج دوں گا۔
اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔ میں نے تھوڑا سر اٹھا کر دیکھا تو پایا میرا بھانجا پیر پسارے دوسری چارپائی پر سو گیا ہے اور مشعل بھی پرسکون پڑی ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ مشعل جو بغل کی چارپائی پر جا کر لیٹی ہے، اسے اٹھاؤں یا نہیں!
تبھی مشعل خود ہی کروٹ لیتے ہوئے میری چارپائی پر آ گئی اور ساتھ میں ہی لیٹ گئی۔
میں نے ہاتھ سے مشعل کے سر کو سہلایا اور ہلکی آواز میں کہا: مشعل بیٹا، ماموں کی یاد آتی تھی؟
مشعل نے معصومیت سے میری طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر بولی: ماموں، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔
اور وہ اور میرے ساتھ اور زیادہ چپک گئی۔ اس کو اپنے سے بالکل چپٹا پاکر میرا لنڈ بہت خوش ہو گیا اور پاجامے سے باہر آرام سے دکھ رہا تھا۔
میں جانتا تھا کہ میری وہ بھانجی ہے، مجھے بہت پیار کرتی ہے اور یہ سب اس کی نادانی میں ہی ہو رہا ہے لیکن مجھے اس کے جسم کا سکھ مل رہا تھا اور صرف میں اس کا مزا لینا اور دینا چاہتا تھا، جو بھی سکھ بغیر کسی کو پتہ چلے مل سکتا تھا۔
میں نے اس رات کا  مکمل فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے سر سے نیچے کیا اور اس کے چہرے اور گال کو سہلانے لگا۔ میں نے اس کا چہرہ تھوڑا اپنی طرف گھمایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اس کے لبوں پر پھیرنے لگا۔
وہ ویسے ہی نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پڑی رہی۔
میرے یوں اس کے چہرے پر اس طرح انگلی پھیرنے سے مشعل بھی بے چین ہو رہی تھی، اس کی سانسیں بہت بھاری ہو کر چل رہی تھیں۔
اس اندھیرے میں بھی وہ مجھے ایک اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اگرچہ اس کی چوچیاں ابھی زیادہ بڑی نہیں ہوئی تھیں لیکن اس کے بدن کی گرمی مجھ کو پاگل کیے  دے رہی تھی۔
چہرہ سہلاتے سہلاتے میں نے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور اس کے کان میں سرگوشی کی: مشعل تو بہت پیاری ہے۔۔۔ مجھے تجھ پر بہت پیار آ رہا ہے، تجھے برا تو نہیں لگ رہا؟
اس نے ہلکے سے اپنا سر نفی میں ہلا کر مجھے پیش قدمی جاری رکھنے کی  خاموش منظوری دی اور اپنا سر میرے بغل میں مزید گھسا لیا۔
اس کی اس حرکت کے بعد تو میں نے ایک نئے جوش میں آ گیا اور اس کو کس کے بھینچ لیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ کے ایک زوردار بوسہ لیا، پھر اس لبوں کو چوسنے لگا۔
میرے گرم لبوں سے وہ بھی بلبلا گئی تھی، شاید وہ خود میں ہی بے سدھ ہو گئی تھی۔
میں نے اس کو چوم رہا تھا اور ادھر میرے ہاتھ اپنے آپ اس کے سینے پر چلے گئے اور اس کی چھوٹی چوچیوں کو ٹٹولنے لگا۔
اپنی بھانجی کے ٹیبل ٹینس کی بالز جتنے مموں کو دباتے ہوئے میں نے کہا: مشعل بیٹی، تم تو کافی بڑی ہو گئی ہو۔
اس نے سسکتے ہوئے سرگوشی میں ہوئے کہا: ماموں جان، میں تو آپ کے لئے ابھی بھی بچی ہی ہوں۔
اب میں کافی مطمئن ہو گیا تھا اور اس ننھی کلی کو پوری طرح چکھنے کے لئے بے قرار بھی۔
میں نے اپنے ہاتھ سے مشعل کی قمیض کھسکا کر اس کے پیٹ بلکہ سینے سے بھی اوپر کر کے اس کے گلے میں ڈال دی۔ اب اس کا ستواں پیٹ اور چھوٹی چھوٹی گوری گوری چونچیاں ننگی ہو چکی تھیں۔ میں اس کی ننگی چوچیوں کو اپنے ہاتھ سے مسلنے لگا، اس کی ننھی ننھی چوچیوں کو میری انگلیاں چھیڑ رہی تھیں اور وہ مزید تنی جا رہی تھیں۔
میں تھوڑا سا نیچے سرک گیا اور مشعل کی پوری چوچیوں کو اپنے ہونٹوں سے چاٹنے اور انہیں منہ میں بھر کے چوسنے لگا۔
مشعل کے منہ سے سسکتی ہوئی گھٹی گھٹی آواز ہی نکل رہی تھی، اس کو بھی آواز سنائی دے جانے کی اتنی ہی فکر تھی جتنی مجھ کو تھی۔
میں نے اس کی چوچیوں کو چوستے چوستے ہی ایک ہاتھ سے اپنے پاجامے کا ناڑا کھول کر اپنا پاجاما ٹانگوں سے نیچے سرکا دیا۔
میرا لنڈ بھنبھنا کر آزاد ہو گیا، مجھے اندھیرے میں بھی اپنے کھڑے لنڈ کا احساس ہو رہا تھا۔
جھٹ سے میں نے چادر کو ہم دونوں کے اوپر ڈال دیا تاکہ کسی کو کچھ دکھائی نہ دے، پھر میں نے اپنی معصوم کم عمر بھانجی کے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور نیچے لے جا کر اپنے لنڈ پر اس کو رکھ دیا۔
میرے لنڈ کو چھوتے ہی وہ چونک گئی اور ہاتھ ہٹانے لگی لیکن میں نے اس کے ہاتھ میں اپنا لوڑا پکڑوا دیا۔
اس نے گھبرائی آواز میں کہا 'ماموں، اتنا بڑا ہے!
میں نے اس کا ہاتھ اپنے لنڈ پر اور بھینچ دیا۔
اس نے کہا ماموں، بھائی کا تو بہت چھوٹا ہے؟
میں نے اس کے ہاتھ سے اپنے لنڈ کو سہلاتے ہوئے کہا مشعل وہ ابھی چھوٹا ہے اس لیے اس کا لنڈ بھی چھوٹا ہے، جب وہ میری طرح بڑا ہو جائے گا تب اس کا بھی ایسے ہی بڑا ہو گا۔
مشعل اب اطمینان سے میرے لنڈ کو پکڑے آہستہ آہستہ اسے اوپر نیچے کرنے لگی تھی۔ جب وو میرے لنڈ سے آرام سے کھیلنے لگی تب میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے اٹھا لیا اور اس کی ننگی پیٹھ کو سہلانے لگا۔
وہ مجھ سے چپکی ہوئی تھی اور میں بھی اس کے ہر عضو کو سہلانا چاہتا تھا، میں نے پیٹھ سہلاتے ہوئے ہاتھ نیچے کیا اور اس کی  الاسٹک والی شلوار کے اندر ڈال کر اس کے چوتڑوں کو مسلنے لگا، میری انگلی اس کی گانڈ کی دراڑ میں جا کر اسے کریدنے لگی۔
وہ چہک سی گئی اور میں نے انگلی صرف اوپر ہی رکھی تاکہ وہ بد دل نہ جائے۔
میں ایک جانب تو کبھی اس کے ہونٹوں کو چومتا اور دوسری جانب  کبھی اس کی چھوٹی سی چوچی کو منہ میں لے کر چوستا اور ساتھ میں اس کے مدھ مست چوتڑوں کو دباتا۔ مشعل بالکل اپنا ہوش کھوتی جا رہی تھی، اس نے دھیرے سے کہا: ماموں، پتہ نہیں میرے دل میں کچھ ہو رہا ہے۔
"کیا ہو رہا ہے جان؟ "
"پتہ نہیں ماموں جان، اندر سے بڑی بے چینی ہو رہی ہے۔"
میں سمجھ گیا تھا کہ اب میری معصوم بھانجی مشعل بالکل گرم ہو گئی ہے، میں نے کہا مشعل بیٹی، اپنی قمیض اتار دو، ٹھیک لگے گا۔
یہ کہتے ہوئے میں نے خود ہی اس کی قمیض اوپر کھینچ دی اور اس نے اس کو اپنے بدن سے الگ ہونے دیا، میں نے بھی فورا اپنی بنیان اتار دی اور وہ میرے ننگے سینے سے چپک گئی۔
میں نے اپنا سر اس پر جھکا کر اس کی ننگی چوچیوں کو منہ میں لے لیا اور ان کو چوسنے لگا۔
میں نے چوستے ہوئے اس سے کہا مشعل، تمہاری امی نے مجھ سے دودھ پینے کو کہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا کیونکہ مجھے تو آج اپنی مشعل کا دودھ پینا تھا۔
وہ بے چاری جواب میں شرما کر محض "اوئی" کہہ کے رہ گئی۔
میں نے اب اس کی چھوٹی سی نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنا ہاتھ پیچھے سے ہٹا کر آگے اس کی شلوار میں ڈال دیا۔
میرا ہاتھ سیدھا اس کی ٹانگوں کے درمیان نرم سی چوت پر پہنچ گیا، میں نے اس کی چوت اپنی ہتھیلی سے دبا لی، میرا اس کی چوت چھونا تھا کہ اس نے اپنی دونوں رانوں کو سکیڑ لیا اور میرا ہاتھ اس کی چوت پر اور کس کر دب گیا۔
اس کی چوت پر ہلکے ہلکے بال تھے، بالکل ریشم کی طرح۔
میں نے پوچھا" مشعل بیٹا، کیا تم اپنے نیچے کے بال نہیں صاف کرتی ہو؟
اس نے کہا امی نے کہا ہے ابھی نہیں کرنے ہیں۔
میں تو جنت میں پہنچ گیا تھا، اتنی چھوٹی، اتنی نرم چوت جس کے پہلے بال بھی آج تک نہ اترے ہوں، آج سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ میری انگلی اس کی چوت کی پھانکوں سے کھیلنے لگی اور میری انگلی آہستہ سے اس کے دانے (کائٹوریس) پر پہنچ گئی۔
میری اس حرکت سے اس کا بدن سخت ہو گیا اور اپنے پیروں کو رگڑنے لگی۔
میں نے اس کی چوت کو رگڑ رہا تھا اور وہ ہانپنے لگی تھی، اس نے میرا لنڈ بھی چھوڑ دیا تھا۔
میں نے تب کہا بیٹا، اپنا منہ نیچے کی طرف کرو۔
یہ کہہ میں اپنی کہنی کے بل تھوڑا اوپر آ گیا اور اس کا سر اپنے لنڈ کی طرف لے گیا اور کہا: مشعل بیٹا، اس کو منہ میں لے کر چوسو!
مشعل چونک گئی اور اس نے چادر سے سر نکال کر کہا: چھی چھی، ماموں جان، یہ گندا ہے، اس سے پیشاب کرتے ہیں۔
میں نے ہوس سے پاگل ہوئی اپنی بھانجی مشعل کو کہا: بیٹا، تم میرے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتی؟ ٹھیک ہے تم اندر جاؤ۔
وہ ایک دم حیران سی رہ گئی، اسے میرے اس رویے کی امید نہیں تھی، وہ گھبرا کر روہانسی ہو گئی، اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
میں نے اس کو روہانسی دیکھ کر اسے اپنے سے چپکا لیا اور اس کو پیار کرتے ہوئے کہا: چلو مشعل بیٹا، اب منہ میں اپنے ماموں کا لنڈ لے لو، اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔ شاباش بیٹا! میں ایسے ہی لیٹ جاتا ہوں اور تم میرے اوپر الٹی لیٹ جاؤ۔ پہلے میں تمہاری چوت کو چاٹوں گا اور چوسوں گا، تم اپنے آپ سمجھ جاؤ گی۔
میں نے مشعل کو اپنے اوپر کھینچ کر الٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنا منہ اس کی ننھی سی چوت پر رکھ دیا۔ جیسے ہی میری زبان نے اس کی چوت کو چھوا، وہ اپنی کمر کسمسانے لگی۔
میں نے ہاتھ سے اس کو دھکا دے کر اشارہ کیا اور اس نے سہمے سہمے میرے لنڈ پر اپنے کپکپاتے ہونٹ رکھ دیئے۔
میں نے اس کی چوت کو آئس کریم کی طرح چاٹ رہا تھا اور وہ بے حال ہو رہی تھی۔
میں نے اپنا ایک پاؤں اٹھا کر اس کے سر کو نیچے کی طرف دھکا دیا اور اشارہ کیا کہ لنڈ وہ منہ کے اندر لے۔
اس نے اپنا منہ آہستہ سے کھولا اور میرا ٹوپا بمشکل تمام اس کے چھوٹے سے منہ میں چلا گیا۔
میرے ٹوپے کو جیسے ہی اس کے منہ کی گرمی ملی، میں نے اپنی کمر اوپر اٹھا کر اور زیادہ لنڈ مشعل کے منہ کے اندر تک ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس بے چاری کا چھوٹا سا منہ تھا اور وہ اس سے زیادہ نہیں لے پا رہی تھی۔
میں نے بھی زیادہ نہ ڈالنے کا من بنایا اور ویسے ہی اپنا لنڈ اس کے منہ میں اندر باہر کرنے لگا۔
مشعل کی چوت میں میری زبان اندر تک گھوم رہی تھی اور ادھر میری زبان اس کی چوت کو چود رہی تھی اور ادھر میرا پھنپھناتا لنڈ اس معصوم بچی کے منہ کو چود رہا تھا۔
میں جوش میں اس کی چوت میں اپنی زبان کافی اندر تک اس کی جھلی تک لے جا رہا تھا، اب مشعل اپنے آپ اپنی کمر کو اوپر نیچے کرنے لگی تھی۔
تبھی اس نے میرے لنڈ سے اپنا منہ ہٹا لیا اور کہا ماموں: اب نہیں کر پاؤں گی، بدن تپ رہا ہے، عجیب سا ہو رہا ہے۔
میں نے مشعل کو اوپر کھینچ لیا اور کہا: بیٹا، طبیعت تو میری بھی بہت خراب ہو گئی ہے، لیکن اب میرا لنڈ تمہاری چوت میں جائے بغیر تو ہم دونوں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی۔ کیا تم میرا لنڈ برداشت کر لو گی؟
یہ سن کر مشعل نے خوفزدہ لہجے میں کانپتے ہوئے کہا: ماموں جان، یہ مت کیجیے۔۔۔ آپ کا بڑا ہے، امی اتنی بڑی ہیں لیکن جب ابو ان کو کرتے ہیں، تب امی بھی چلاتی ہیں۔
میں نے اس کو اپنے سے اور چپکاتے ہوئے اس کی چوت جو گیلی تھی میں انگلی ڈالتے ہوئے دھیرے سے کہا بیٹی، امی تمہاری درد سے نہیں، مزے میں چلاتی ہیں، میں آہستہ سے ڈالوں گا، پرامس۔۔۔ تھوڑا سا برداشت کر لینا، اس کے بعد تو امی کی طرح تم بھی مزے سے چلّاؤ گی۔
میں مشعل سے یہ سب کہتے ہوئے ساتھ ساتھ اس کی چوت میں انگلی گھسیڑ کر اس کو انگلی سے ہی چود بھی رہا تھا تا کہ میری معصوم بھانجی کی چوت تھوڑی ڈھیلی ہو جائے اور اسے کم درد ہو۔
اس نے کہا: ماموں جان، آپ کو میری قسم، جب میں کہوں گی تب نکال دینا، اور پورا اندر مت ڈالنا۔۔۔ پلیز
میں نے اس کی چمی لی اور کہا: شاباش مشعل بیٹا، بس شروع میں صرف تھوڑی سی ہمت کر لینا۔
اب میں نے مشعل  کو بستر پر لٹا دیا اور اس کی کمر اٹھا کر تکیہ اس کے چوتڑوں کے نیچے لگا دیا تاکہ اس کی چوت ابھر کر اوپر آ جائے۔
میں نے اس کی ٹانگوں کو پھیلایا اور خود  اس پر لیٹ گیا اور اس کے کان میں کہا: مشعل بیٹا، دوپٹہ منہ میں ڈال لو، پہلی بار جب لنڈ جائے گا تو آواز نکل سکتی ہے۔
یہ کہتے ہوئے میں نے خود ہی اس کا دوپٹہ اس کے منہ میں ڈال دیا کیونکہ مشعل کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ایک طرف اس کو اتنا مزہ مل چکا تھا کہ وہ اور بھی آگے جانے کو تیار تھی اور دوسری طرف وہ گھبرا بھی رہی تھی، اس لیے کہیں وہ بدل نہ جائے اور چلّا نہ پڑے، میں نے اس کے منہ میں خود ہی اس کا دوپٹا ڈال دیا۔
پھر میں نے ڈھیر سارا تھوک نکال کر اپنے لنڈ پر لگا دیا، کوئی تیل یا کریم تو وہاں اس وقت ملنی نہیں تھی اور میں اس کو بغیر چودے آج کی رات نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
پھر اور تھوک نکال کر میں نے اس کی چوت کے اندر بھی اچھی طرح لگا دیا تاکہ چوت سبھی چکنی ہو جائے۔
میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا مشعل کی چوت کو پھیلا کر اس کے سوراخ کے منہ پر رکھ دیا اور اس معصوم کو اپنی  بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا تا کہ وہ درد کے مارے تڑپتے ہوئے مجھ سے چھوٹ کر بھاگ نہ سکے۔ اب میں اس کو چومنے لگا اور اس دوران میں نے ایک ہلکا سا دھکا مارا اور میرا ٹوپا مشعل کی چھوٹی سی کنواری چوت میں گھس گیا۔۔۔ وہ بے چاری درد کے مارے تڑپنے لگی۔
میں پریشان ہو گیا، اس کے منہ سے آواز نکلنے لگی اور وہ اپنا سر ادھر ادھر پٹکنے لگی، مجھے کچھ نہیں سوجھا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا اور کس کے دھکا مار کر لنڈ اس کی چوت میں زبردستی ڈال دیا۔
وہ بن پانی کے مچھلی طرح تڑپنے لگی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور مجھ سے اشارے سے ہٹنے کو کہنے لگی۔
میں نے 3/4 دھکے اور مار کر اپنا آدھا لنڈ اس کی چوت میں ڈال دیا اور پھر رک گیا۔
میں نے اس کے کان میں کہا: مشعل بیٹا، بس ہو گیا۔۔۔ اب اور اندر نہیں ڈالوں گا، چلّانا مت۔۔۔ میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں۔۔۔ نہیں تو دونوں پکڑے جائیں گے۔
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے سر کو سہلانے لگا اور جب تھوڑی وہ پرسکون لگی، تب ہاتھ ہٹا لیا، اس نے دوپٹہ منہ سے ہٹا دیا اور روتے ہوئے کہا ماموں، اب نکال دو، اندر کٹا جا رہا ہے، نہیں برداشت ہو رہا!
میں نے کہا: مشعل ششش۔۔۔ چپ ہو جاؤ بیٹا، جو ہونا تھا ہو گیا اب آرام آ  جائے گا، اب اتنا درد نہیں ہو گا، بلکہ مزا آئے گا۔
میں اس کو چومنے لگا اور اس کی چوچیوں کو بھی چوسنے لگا اور وہ تھوڑا پرسکون ہو گئی، تب میں آہستہ سے اس کی چوت میں اپنا لنڈ اندر باہر کرنے لگا۔
میں نے پورا لنڈ اندر نہیں ڈالا، صرف آدھا ہی ڈال کر باہر کر لیتا تھا۔ اب وو میرے آدھے لنڈ کو لے رہی تھی ہر ہلکے دھکے میں بھی اس کے چہرے پر درد کی لکیر آ جاتی تھی لیکن اس کو لنڈ کا احساس اپنی چوت کے اندر اچھا بھی لگنے لگا تھا۔
تھوڑی طرح اس طرح چودنے کے بعد میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت سے نکال لیا اور اس کو گودی میں لے لیا۔
گودی میں بیٹھ کر وہ چپ ہو گئی، میرا لنڈ اس کے ننگے چوتڑوں سے ٹکرا رہا تھا اور میں اس کی چوچی دبا رہا تھا اور ساتھ میں اس کی چوت کو بھی سہلا رہا تھا۔
اب میں صرف اپنی انگلی سے ہی اس کو دھیرے دھیرے چود رہا تھا اور وہ انگلی سے چدوانے کا مزہ لینے لگی تھی۔ تبھی اس کا بدن اکڑ گیا اور وہ سسکنے لگی، مجھے سمجھ میں آ گیا کہ مشعل کو اورگیزم ہو گیا ہے اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔
میں اس کو چومنے لگا اور وہ مجھ سے چپک گئی۔
میں اس کے ننگے بدن کو سہلانے لگا اور اس کو بستر پر پھر سے لٹا دیا، اس مرتبہ مشعل خاموشی سے لیٹ گئی اور میں نے اس کی رانوں کو پھیلا کر اپنا لنڈ اس کی چوت پر رکھ دیا۔
وہ بے چاری تو سمجھی تھی کہ بس اب چدائی کا دور ختم ہو چکا ہے لیکن میرا ٹوپا اپنی چوت پر محسوس کرتے ہی وہ مچلنے لگی اور بولی: ماموں جان، اب ور مت کرنا پلیز۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے۔۔۔ پلیز۔۔۔ بس اور نہیں نا۔۔۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایک جھٹکے میں آدھا لنڈ اس کی چوت میں گھسیڑ دیا۔ اس کا بدن میرا لنڈ پاکر تن گیا اور میں اسی حالت میں ہی اس کی بہت ہی تنگ چھوٹی سی چوت میں اپنا لنڈ پیلنے لگا۔ اب مشعل آہستہ آہستہ میرا لنڈ لینے لگی اور میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لنڈ اس کے اندر جاتا اور نکلتا تو وہ بھی ساتھ ساتھ اپنی کمر ہلانے لگی تھی اور اس کو چدائی کا اصلی مزا آنے لگا تھا۔
دو تین منٹ کے بعد میں خود کو روک نہیں پایا اور کس کے دھکے مارنے لگا اور پورا لنڈ اس کی چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ میرے جھٹکوں سے اس کے منہ سے اف آہ آآآآہ آآآآآہ اووووئی اففففف کی آوازیں آنے لگی تھی۔
میں بھی اب اپنے کو روک نہیں پا رہا تھا اور جھڑنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
میں نے مشعل کو جکڑ لیا اور کس کے دھکے مارنے لگا، وہ "آہ آہ ماموں جان۔۔۔ بس بس۔۔۔ اب بس کر دیں پلیز" کر کے میری منتیں کرنے لگی۔
میں بھی جنونی ہو گیا تھا، بھول گیا تھا کہ سب لوگ کچھ ہی فاصلے پر کمرے میں سو رہے ہیں۔
اور جیسے ہی مجھے لگا کہ اب نہیں رک پائے گا، میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت سے نکال دیا، میں اس کے پیٹ پر ہی جھڑ گیا اور ہانپتے ہوئے اپنی بھانجی مشعل کے اوپر گر گیا۔
تھوڑی دیر بعد میں ہوش آیا اور احساس ہوا کہ ہوس کی آگ میں میں نے کیا کر دیا اور کتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔
میں نے اپنے سرہانے رکھے رومال سے لنڈ پوچھا اور جب مشعل کو پوچھنے گیا تب ہوش اڑ گئے اس کی کنواری چوت پھٹ چکی تھی اور خون نکلا ہواتھا۔
تکیے کے لحاف پر بھی خون کے نشان تھے۔
میں نے اس کو اٹھایا وہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھی اور کپڑے پہنے۔
میں نے اس کو اشارے سے کہا کہ وہ باتھ روم جائے، میں بعد میں جاؤں گا۔
وہ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو میں گیا اور ساتھ میں تکیے کا لحاف بھی لے گیا۔ خون تازہ تھا اس لئے صابن سے دھو کر باہر لٹکا دیا۔
واپس چارپائی پر آیا تو دیکھا مشعل نہیں ہے وہ اپنی چادر لے کر اندر سونے چلی گئی تھی۔
میں اپنے بستر پر جو ہوا تھا اس کو سوچتے ہوئے سو گیا۔
صبح جب اٹھا تو احساس ہو گیا کہ میں نے واقعی کیا کل رات وہ سب کیا، عجیب خوف اندر گھر کر گیا۔
اس دن مشعل طبیعت کی خرابی کا کہہ کر اسکول نہیں گئی۔۔۔ جاتی بھی کیسے! بے چاری کا معصوم بدن اپنی زندگی کی پہلی چدائی کروا کر درد کر رہا ہو گا۔ شاہد کے اسکول جانے کے بعد ثمینہ آپا بھی کسی کام سے چلی گئیں۔ تب مشعل اٹھی اور مجھے دیکھ کر شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ میں بے حد خوف زدہ تھا لیکن مشعل بہت پیار سے ماموں جان، آئی لو یو کہہ کے مجھ سے چپک گئی۔ میرا خوف بھی ختم ہو گیا اور میں نے اسے چومنا شروع کیا۔ آپا اور شاہد کے گھرو اپس آنےس ے پہلے میں اپنی بھانجی کو دو مرتبہ مزید چود چکا تھا۔
اس کے بعد میں ہفتہ بھر آپا کے ہاں رکا اور روزانہ رات کو مشعل میرے ساتھ ہی سوتی اور ہم بلا ناغہ چدائی کرتے۔ اس دوران میں نے اس کی گانڈ بھی ماری جو اس کے لیے پہلی مرتبہ چوت مروانے سے بھی کہیں زیادہ دردناک تجربہ تھا لیکن وہ معصوم میری محبت میں یہ درد بھی سہہ گئی۔ 
اس کے بعد میرا ثمینہ آپا کے ہاں جانا کافی بڑھ گیا اور ہر دو ماہ بعد میں ان کے ہاں پہنچ جاتا اور دس سے پندرہ دن قیام کرتا اور واپسی میں اکثر ضد کر کے مشعل میرے ساتھ آ جاتی اور ہفتہ بھر ہمارے ہاں رہتی۔ اس کے علاوہ اس کی گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں بھی ہمارے ہاں ہی گزرتیں۔ ان سالوں میں اس نے مجھ سے سینکڑوں مرتبہ ہر پوز میں چدوایا اور نہ صرف اپنی کئی سہیلیوں کی چوت اور گانڈ کی سیل بھی مجھ سے کھلوائی بلکہ میں نے بھی اسے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ مل کر کئی مرتبہ چودا۔ 
پھر اس کی شادی ہو گئی لیکن اس کی شادی کے بعد اب بھی جب کبھی وہ ہمارے ہاں آتی ہے یا ہمیں کہیں اور موقع ملتا ہے وہ مجھ سے چدوا لیتی ہے۔ اس کے دو بچے ہو چکے ہیں جن کا باپ میں ہوں یا اس کا شوہر کوئی نہیں جانتا۔