میری عمر 17 سال ہے اور میں لاہور کا رہنے والا ہوں۔ میں ایف ایس سی کر رہا ہوں. میری ایک بہن ہے جس کا نام ثنا ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ وہ میٹرک میں پڑھتی ہے۔ ثنا کا فگر اس عمر میں بھی گو بچگانہ مگر قیامت ڈھانے والا ہے۔ 32 کے نوکیلے ممے، 22 پیٹ اور 34 کے چوتڑ اور رنگ گورا ہے۔ چڑھتی جوانی کے باعث وہ بے حد سیکسی دکھتی ہے۔ میں جب بھی اپنی بہن کو دیکھتا ہوں تو لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے خصوصاً جب ثنا نے ٹائٹ قمیض شلوار پہن رکھی ہو۔
میں اس کے نام کی روزانہ مٹھ لگاتا ہوں۔ میں نے بہت چاہا کہ اسے چود لوں لیکن ہمیشہ یہی سوچ کر ڈرتا رہا کہ کہ یں وہ کسی کو بتا نہ دے۔ اس لیے سوچا کہ کہ پہلے ثنا کو اپنے قریب کر لوں اور اس سے فرینک ہو جاؤں پھر موقع تلاش کروں گا۔
ایک دن ویک اینڈ پر میں بالکل فارغ تھا اور میری بہن ثنا نے آج ٹائٹ سی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے جسم کے تمام خطوط واضح نظر آ رہے تھے۔ میرا لنڈ تو جھٹکے کھا رہا تھا اور میں تصور کی آنکھ سے اسے چودتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پھر میں نے سوچا کیوں نہ آج اسے گھمانے لے جاؤں اس طرح اس کے اور قریب ہو جاؤں گا۔
میں اپنی بہن کے قریب گیا اور اس سے کہا "ثنا میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلو گی؟"
وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے ایسی آفر نہیں کی تھی۔ وہ بولی "آج خیریت تو ہے نا بھائی؟"
میں نے کہا "ہاں یار! آج فارغ ہوں اور کوئی دوست بھی نہیں ہے۔۔۔ سوچا تمھیں لے چلتا ہوں"۔
وہ بہت خوش ہوئی اور بولی "ہاں بھائی! چلتے ہیں، میرا بھی سیر کرنے کا بہت دل کر رہا ہے"۔
بس پھر کیا تھا۔ میں تو بہت خوش ہوا کہ اپنی بہن کے ساتھ دوستی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ خوب وقت گزرے گا۔ میں امی کے پاس گیا اور ان سے اجازت لی۔ انھوں نے کہا "ہاں جاؤ لیکن بائک دھیان سے چلانا اور زیادہ دور نہ جانا۔ جلدی واپس آ جانا"۔ میں نے امی کے گال کو چومتے ہوئے ان سے "او کے" کہا اور ثنا سے کہا "چلو ثنا! چلتے ہیں"۔
ثنا نے کہا "بھائی! میں کپڑے بدل لوں۔۔۔"
میں نے کہا "ارے نہیں! نہیں! تم ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی ہو"۔
اس نے کہا "اچھا" اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور ہم بائک پر بیٹھ کر نکل پڑے۔
میں نے سوچا کسی سنسان جگہ جائیں جہاں لوگ نہ ہوں اور یہ سوچ کر میں ہائی وے پر آ گیا۔ وہاں پاس ہی بہت خوبصورت گاؤں تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔
میری بہن نے دیکھ کر کہا "بھائی! یہ تو بہت خوبصورت جگہ ہے"۔
میں نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے ایک طرف بائک پارک کی اور ہم پیدل ہی سیر کرنے لگے۔ وہاں ایک خوبصورت سا باغ بھی تھا۔ ہم دونوں بہن بھائی سیر کرتے کرتے کچھ دور نکل آئے تھے۔ وہاں دیکھا تو ایک بہت بڑی اور خوبصورت حویلی زیرِ تعمیر تھی لیکن اندر باہر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید آج ویک اینڈ کی وجہ سے چھٹی ہو اس لیے کام بند ہو۔ میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے 4 بج رہے تھے اور ہم گھر سے 3 بجے نکلے تھے۔میری بہن کو بھی وہ حویلی بہت شاندار گی تھی، تبھی اس نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں یہ حویلی اندر سے دیکھنی چاہیے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہوتا، میں تو خود اپنی بہن کے ساتھ سنسان سے سنسان جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ ہم حویلی کے احاطے میں داخل ہو گئے جو کہ اندر سے بھی ابھی پوری طرح نہیں بنی تھی لیکن اس کے باوجود کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ یقیناً کسی بہت بڑے زمیندار کی ملکیت ہو گی۔ ہم ابھی حویلی کو اندر سے گھوم پھر کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک کہیں سے پنجابی گانے کی اونچی سی آواز سنائی دی۔
میری بہن بولی "یہ گانوں کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا"۔
میں نے کہا "آؤ! دیکھتے ہیں۔۔۔ شاید کوئی چوکیدار یہاں رہتا ہو اور اسی نے گانے لگائے ہوئے ہوں"۔
ہم آواز کے تعاقب میں ایک زیرِ تعمیر کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں اور گانوں کی آواز بھی اسی تہہ خانے سے آ رہی تھی۔ میں اور میری بہن یہ سوچ کر نیچے اترنے لگے کہ یقیناً کوئی چوکیدار ہو گا لیکن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر ایک موڑ مڑ کر ہم تہہ خانے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کمرے کا منظر دیکھ کر ہماری سٹی گم ہو گئی، میرا بھی چہرا سرخ ہو گیا تھا اور میری بہن نے تو مارے شرم کے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ وہاں تقریباً 8 لڑکے بیٹھے ہوئے شراب اور سگریٹ پی رہے تھے اور ان کے درمیان 2 لڑکیاں جو رنڈیاں لگ رہی تھیں سر سے پاؤں تک ننگی ناچ رہی تھیں۔
میری بہن نے مجھ سے کہا "چلو بھائی چلیں! یہ اچھے لوگ نہیں ہیں"۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ان میں سے ایک لڑکے کی نظر ہم پر پڑ گئی اور وہ ہمیں دیکھ کر زور سے چیختا ہوا بولا "اوئے کون ہو ہو تم؟" اور اس کی آواز پر اس کی نظروں کے تعاقب میں سب ہماری جانب دیکھنے لگے۔
میں نے کہا "سوری بھائی! ہم غلطی سے آ گئے تھے اس طرف۔۔۔ آپ فکر نہ کریں ہم جا رہے ہیں"۔
ان میں سے ایک لڑکے نے پستول نکال کر ہم پر تان لیا اور بولا "اوئے زیادہ ہوشیاری نہ دکھاؤ۔۔۔ اندر آؤ"۔ میں اور میری بہن ڈرتے ڈرتے اندر چلے آئے۔ میری بہن نے اپنا دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر اور سینے پر لے لیا تھا۔ میں نے اندر آ کر کہا "بھائی! میں سوری کرتا ہوں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ لوگ نیچے ہو"۔
پستول والا لڑکا بولا "اوئے تجھے کس نے بھیجا ہے اور یہ لڑکی کون ہے؟"
میں نے کہا یہ میری چھوٹی بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے اتفاقاً آ گئے ہیں"۔
اس بات پر وہ لڑکے ہنس پڑے اور ان میں سے ایک بولا "ابے بھڑوے! یہ تیری بہن ہے یا گرل فرینڈ جسے تو یہاں چودنے کے لیے لایا ہے"۔
میں نے کہا "قسم سے بھائی یہ میری بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے آ گئے ہیں"۔ وہ رنڈیاں بھی مجرا بند کر کے کھڑی ہو کر ہماری طرف دیکھ کر اور میری باتوں پر ہنس رہی تھیں۔
ان میں سے ایک لڑکا بولا "اوئے بہن چود! کوئی اپنی بہن کو لے کر سنسان جگہوں پر آتا ہے کیا؟ ہمیں چوتیا سمجھتا ہے۔"
میں نے کہا "نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ میں قسم کھا رہا ہوں آپ کے سامنے"۔
وہ بولا "چل ٹھیک ہے۔۔۔ مان لیتے ہیں یہ تیری بہن ہے لیکن چیز تو مست ہے"۔ اس لڑکے نے ان رنڈیوں کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھا "کیوں بھئی! مست چیز ہے نا؟"
ایک رنڈی بولی شکل سے تو کم عمر ہی لگتی ہے لیکن پتا نہیں کتنوں سے چدوایا ہو گا"۔
مجھے بہت غصہ چڑھا اور میں نے اسے کہا "تو خود رنڈی ہے۔۔۔ میری بہن ایک شریف لڑکی ہے۔" اس پر وہ رنڈی ہنسنے لگی۔
میری بہن بہت گھبرائی اور سہمی ہوئی تھی اور اس نے شرم سے اپنا منہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ اس نے مجھے کہا "بھائی! چلو یہاں سے۔۔ ۔ان کے منہ نہ لگو"۔
میں نے بھی کہا "او کے چلو!" یہ سن کر ایک لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آیا اور بولا "گانڈو! تو اور تیری بہن یہاں آئے اپنی مرضی سے ہیں لیکن جاؤ گے ہماری مرضی سے"۔
میں نے اسے کہا "بد تمیزی مت کرو ہمارے ساتھ"۔
اس پر وہ ہنس پڑا اور بولا "اچھا! نہیں تو کیا کرے گا؟" ایک اور لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آ گیا اور اس لڑکے سے کہنے لگا "نہیں یار! انھیں ایسے مت بول! یہ ہماری بات مان لیں گے"۔
پھر وہ مجھ سے بولا "چل بتا! اپنی بہن کی کیا قیمت لے گا؟ ہمارا تیری بہن کی معصوم اور کمسن جوانی پر دل آ گیا ہے۔ صرف آج کی رات چودیں گے"۔
مجھے اس کی بات سن کر شدید غصہ آ گیا اور میں نے "کتے! تیری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی، یہ میری بہن ہے" کہہ کر اس کے منہ پر ایک تھپڑ جما دیا۔ یہ دیکھ کر سارے لڑکے اٹھ گئے اور مجھے پکڑ کر تھپڑ اور مکے مارنے لگے، میری بہن رونے لگی اور ان کی منتیں کرنے لگی کہ میرے بھائی کو چھوڑ دو پلیز۔ ایک لڑکے نے کہا "اس بہن چود کو باندھ دو"۔
یہ سن کر میری بہن ان کی مزید منتیں کرنے لگی "نہیں بھائی نہیں پلیز میرے بھائی کو چھوڑ دیں، ہمیں جانے دیں، پلیز!"
اس لڑکے نے میری بہن کی طرف دیکھا اور کہا "جانِ من! تیرے لیے تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں، لیکن پہلے تیری چوت ماروں گا اور پھر جو تو کہے گی وہ کروں گا۔"
میری بہن روتے ہوئے ہاتھ باندھ کر ان لڑکوں سے صرف اتنا کہہ رہی تھی "نہیں بھائی! پلیز نہیں، ہمیں جانے دیں بھائی!"
اس دوران مجھے ان سب نے پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا تھا لیکن میں انھیں گالیاں نکال رہا تھا اور کہہ رہا تھا "حرامزادو! میری بہن کو کچھ کہا تو میں تمھاری بہن چود دوں گا، گانڈ پھاڑ دوں گا تمہاری ماں چود دوں گا"۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور مجھے ایک زوردار تھپڑ مارا۔ میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ وہ تو غصے میں پاگل ہو گیا اور مجھے مکے اور ٹھڈے مارنے لگا۔
میری بہن یہ دیکھ کر مزید رونے لگی اور اس لڑکے کے پاس آ کر اس کے آگے ہاتھ باندھ کر بولی "پلیز میرے بھائی کو مت ماریں پلیز!"
وہ لڑکا مجھے مارنے سے رک گیا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگا "بہن چود! تیری بہن کا ہم آج وہ حال کریں گے کہ تو بھی ساری عمر یاد رکھے گا اور تیری بہن بھی"۔
دوسری طرف وہ دونوں رنڈیاں کھڑی ہنس رہی تھیں لیکن اس دوران انھوں نے اپنے برا اور انڈر ویئر پہن لیے تھے۔
ایک رنڈی بولی "مجھے تو یہ پکا بہن چود لگتا ہے جو اپنی سگی بہن کو لے کر سنسان حویلی میں آیا تھا"۔
ایک لڑکا بولا "اس لڑکے کا منہ بند کرو!" اس پر ایک رنڈی آگے بڑھی اور بولی "میں کرتی ہوں"۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا انڈرویئر اتارا اور اس کا گولا بنا کر میرے منہ میں گھسیڑ دیا۔ میں نے منہ ادھر ادھر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے اپنی گیلی اور بودار پینٹی میرے منہ میں گھسیڑ کر ہی دم لیا۔ سب لڑکے یہ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
میری بہن کا چہرالال سرخ ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے اس نے یہ سب کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لڑکے نے میری طرف دیکھا اور کہا "اب تیری بہن کو تیرے سامنے نچواؤں گا"۔ یہ کہہ کر اس نے پستول نکالی اور مجھ پر تانتے ہوئے میری بہن کو بولا "اگر اپنے بھائی کی زندگی بچانی ہے تو جلدی سے ناچنا شروع کر دے کتیا!"
میری بہن زور زور سے رونے لگی اور ہاتھ باندھ کر اس لڑکے سے معافی مانگنے لگی لیکن اس لڑکے نے ایک کرارا چانٹا میری معصوم بہن کے گال پر رسید کیا اور پستول کی نال میرے ماتھے پر لگا دی۔ میری بہن روتے ہوئے چیخی "نہیں! نہیں! میں ناچتی ہوں لیکن میرے بھائی کو کچھ نہ کہنا"۔ میں رسیوں میں بندھا ہوا تڑپ کر رہ گیا۔
انہوں نے ایک نہایت فحش پنجابی مجرے کا گانا لگا دیا "نیڑے آہ آہ ظالما وے!"۔ اس لچر گانے کے بول سن کر میری بہن کا چہرا مزید سرخ ہو گیا اور اس کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں، اس نے کبھی ڈانس نہیں کیا تھا بس فرینڈز کے ساتھ کالج میں یا خاندان کی ایک آدھ شادی پر کزنز کے ساتھ تھوڑا بہت۔ پہلے تو میری بہن چپ چاپ کھڑی رہی لیکن جب اس لڑکے نے اسے ڈانٹا تو وہ پہلے آہستہ آہستہ تھرکنے لگی لیکن لڑکوں کے بار بار ڈانٹنے اور دھمکانے پر تیز ڈانس کرنے لگی۔
ایک لڑکے نے میری بہن سے پوچھا "تیرا نام کیا ہے؟" وہ بولی "ثنا"۔
اس لڑکے نے کہا "ثنا! میری جان! اپنا دوپٹہ تو اتار، ہمیں تیرا بدن دیکھنا ہے"۔ لیکن میری بہن نے اپنا دوپٹہ نہ اتارا اور دوپٹے کے ساتھ ہی ناچتی رہی۔
ایک رنڈی آگے بڑھی اور کھینچ کر میری بہن کے گلے میں سے اس کا دوپٹہ اتار لیا جسے میری بہن نے واپس چھیننا چاہا تو اس رنڈی نے میری بہن کا دوپٹہ ایک لڑکے کی طرف اچھال دیا اور ایک طمانچہ میری بہن کے منہ پر لگاتے ہوئے بولی "گشتی! اب شرمانا اور نخرے کرنا چھوڑ اور سیدھی طرح ڈانس کر"۔
میری بہن نے ٹائٹ شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جو پہلے تو دوپٹے میں چھپی ہوئی تھی مگر دوپٹہ اترتے ہی اس کے بدن کے تمام ابھار نمایاں ہو گئے تھے۔ میری بہن کے ابھرے ہوئے پستان اور کولھے نظر آنے لگے تھے اور وہ بے حد سیکسی لگ رہی تھی۔ لڑکوں کے تو منہ میں پانی آنا ہی تھا میرا اپنا حال یہ تھا کہ اس آفت میں گھرا ہونے کے باوجود اپنی بہن کے جسم کے خطوط کو ہلتا ہو دیکھ کر ہلکا ہلکا لطف آنے لگا تھا۔ ایک لڑکا مجھ سے بولا "ہائے! تیری بہن تو سیکس بم ہے، میرا تو ابھی سے لنڈ کھڑا ہو گیا ہے"۔
ایک لڑکا بولا "آج ساری رات اس رنڈی کو چودیں گے یار یہ بہت مزے دار چیز ہے سالی"۔ میری بہن اپنے دونوں ہاتھ اپنی سینے پر رکھ کر اپنی چھاتیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس دوران ایک لڑکے نے اپنی پینٹ میں سے چمڑے کا لمبا سا بیلٹ نکال لیا تھا اور اسے میری بہن کے چہرے کے سامنے جھٹکتے ہوئے اسے بولا "گشتی! ہاتھ ہٹا مموں پر سے اور سیدھی طرح ڈانس کر ورنہ اس بیلٹ سے تیری چمڑی ادھیڑ دوں گا اور تیرے بھائی کو گولی مار دوں گا"۔
میری بہن اس لڑکے کے پاؤں میں گر گئی اور بولی "بس بھائی! میں نے آپ کے کہنے پر ڈانس کر لیا، اب ہمیں جانے دیں۔۔۔ ہمارے امی ابو کو پتا چل گیا تو پریشان ہوں گے"۔
ایک لڑکا بولا "ہاں یار کہیں ان کے ماں باپ پولیس میں رپورٹ نہ کروا دیں۔۔۔ کوئی مسئلہ نہ ہو جائے"۔ اس کی بات سن کر وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے۔
ایک رنڈی بولی "میں اس کی سہیلی بن کر اس کے گھر فون کر دیتی ہوں کہ یہ آج میرے ساتھ رکیں گے"۔ اس کا آئیڈیا سن کر سب نےا سے داد دی اور وہ رنڈی میری بہن سے بولی "چل اپنے گھر فون کر اور بتا کہ تو اپنی کسی سہیلی کی طرف رکے گی اور بھائی بھی تیرے ساتھ رکے گا"۔
میری بہن بولی "نہیں! میں یہ نہیں کروں گی"۔ اس رنڈی نے میری بہن کے منہ پر ایک تھپڑ لگایا اور جس لڑکے نے بیلٹ نکالی تھی اس نے بیلٹ کو بطور ہنٹر استعمال کرتے ہوئے میری بہن کو گالی دیتے ہوئے اس کی کمر پر ایک کرارا بیلٹ رسید کیا۔ بیلٹ کی چوٹ پڑتے ہی میری بہن کی زوردار چیخ نکلی اور وہ میرے پاس آ کر گر گئی۔ وہ رنڈی میرے پاس آ گئی اور میرے بال پکڑ کر میری بہن سے بولی "ثنا! تیرے بھائی کو ہم گولی مار دیں گے ورنہ۔۔۔"
میری بہن اس کی بات سن کر ڈر گئی اور سسکتے ہوئے "اچھا! کرتی ہوں" کہہ کر اقرار میں گردن ہلا دی۔ میری جیب سے موبائل فون تو ان لڑکوں نے پہلے ہی مجھے باندھنے کے دوران نکال لیا تھا۔ میری بہن کو انہوں نے وہ موبائل فون دیا جس سے اس نے گھر کا نمبر ملایا۔ اس دوران پستول والا لڑکا مسلسل پستول کی نال میری کنپٹی سے لگائے ہوئے تھا۔
امی نے فون اٹھایا تھا، میری بہن نے سلام کرنے کے بعد کہا "امی! آج میں اور بھائی میری سہیلی کے ہاں رکیں گے"۔
امی نے پوچھا "خیر تو ہے نا؟ کون سی سہیلی ہے؟"
میری بہن نے کہا "امی! وہ مجھے بہت دنوں کے بعد ملی ہے۔ سکول میں ہوتی تھی سلمیٰ"۔
اس کے بعد اس رنڈی نے فون میری بہن کے ہاتھ سے اچک لیا اور بولی "آنٹی! میں ہوں۔۔ اس کی سہیلی سلمیٰ! آپ فکر نہ کریں، یہ دونوں بہن بھائی آج ہمارے ہاں ہی رک رہے ہیں، کل آ جائیں گے"۔ کچھ دیر بعد امی شاید یہ سوچ کر مان گئیں کہ چلو بھائی بھی ساتھ ہے تو مسئلہ نہیں ہو گا۔ رنڈی نے فون آف کر دیا۔
میں سمجھ گیا تھا کہ آج رات میری بہن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، آٹھ مسٹنڈے میری بہن کو ساری رات نوچیں گے اور اس کی کنواری چوت کو پھاڑ کر بھوسڑا بنا دیں گے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
میری بہن دوبارہ رونے لگی تھی۔ وہ لڑکے بولے "چل ناچ اب زیادہ ناٹک نہ کر ورنہ۔۔۔" انہوں نے وہی گانا دوبارہ چلا دیا تھا اور میری بہن سسکتے ہوئے دوبارہ ان آٹھ لڑکوں کے سامنے ناچنے لگی۔ میری بہن کو ناچنا نہیں آتا تھا، وہ صحیح ڈھنگ سے ناچ نہیں پا رہی تھی لیکن بغیر دوپٹے کے ٹائٹ شلوار قمیض میں ناچتی وہ واقعی کوئی ٹاپ کلاس گشتی ہی لگ رہی تھی۔ گانا ختم ہوا تو میری بہن بے چاری ان ظالموں کے تھپڑ اور بیلٹ کھا کھا کر چیختے ہوئے ناچ ناچ کر بے حال ہو چکی تھی اور پسینے میں شرابور تھی۔ پسینہ آنے کی وجہ سے میری بہن کی قمیض بالکل ہی ٹرانسپیرنٹ سی ہو گئی تھی کیونکہ اس نے نیچے شمیز نہیں پہنی ہوئی تھی لہٰذا پسینے سے بھیگی لان کی قمیض اس کے بدن سے چپکنے کے باعث اس کا گورا پیٹ اور ناف اور کمر تو بالکل ہی عریاں نظر آ رہے تھے۔
اس دوران تمام لڑکے اپنی پینٹیں اتار چکے تھے اور میری بہن کا سیکسی مجرا کر اپنے لمبے موٹے لوڑے ہاتھوں میں لےکر مسل رہے تھے۔
میں اس کے نام کی روزانہ مٹھ لگاتا ہوں۔ میں نے بہت چاہا کہ اسے چود لوں لیکن ہمیشہ یہی سوچ کر ڈرتا رہا کہ کہ یں وہ کسی کو بتا نہ دے۔ اس لیے سوچا کہ کہ پہلے ثنا کو اپنے قریب کر لوں اور اس سے فرینک ہو جاؤں پھر موقع تلاش کروں گا۔
ایک دن ویک اینڈ پر میں بالکل فارغ تھا اور میری بہن ثنا نے آج ٹائٹ سی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے جسم کے تمام خطوط واضح نظر آ رہے تھے۔ میرا لنڈ تو جھٹکے کھا رہا تھا اور میں تصور کی آنکھ سے اسے چودتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پھر میں نے سوچا کیوں نہ آج اسے گھمانے لے جاؤں اس طرح اس کے اور قریب ہو جاؤں گا۔
میں اپنی بہن کے قریب گیا اور اس سے کہا "ثنا میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر چلو گی؟"
وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے ایسی آفر نہیں کی تھی۔ وہ بولی "آج خیریت تو ہے نا بھائی؟"
میں نے کہا "ہاں یار! آج فارغ ہوں اور کوئی دوست بھی نہیں ہے۔۔۔ سوچا تمھیں لے چلتا ہوں"۔
وہ بہت خوش ہوئی اور بولی "ہاں بھائی! چلتے ہیں، میرا بھی سیر کرنے کا بہت دل کر رہا ہے"۔
بس پھر کیا تھا۔ میں تو بہت خوش ہوا کہ اپنی بہن کے ساتھ دوستی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ خوب وقت گزرے گا۔ میں امی کے پاس گیا اور ان سے اجازت لی۔ انھوں نے کہا "ہاں جاؤ لیکن بائک دھیان سے چلانا اور زیادہ دور نہ جانا۔ جلدی واپس آ جانا"۔ میں نے امی کے گال کو چومتے ہوئے ان سے "او کے" کہا اور ثنا سے کہا "چلو ثنا! چلتے ہیں"۔
ثنا نے کہا "بھائی! میں کپڑے بدل لوں۔۔۔"
میں نے کہا "ارے نہیں! نہیں! تم ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی ہو"۔
اس نے کہا "اچھا" اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور ہم بائک پر بیٹھ کر نکل پڑے۔
میں نے سوچا کسی سنسان جگہ جائیں جہاں لوگ نہ ہوں اور یہ سوچ کر میں ہائی وے پر آ گیا۔ وہاں پاس ہی بہت خوبصورت گاؤں تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔
میری بہن نے دیکھ کر کہا "بھائی! یہ تو بہت خوبصورت جگہ ہے"۔
میں نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے ایک طرف بائک پارک کی اور ہم پیدل ہی سیر کرنے لگے۔ وہاں ایک خوبصورت سا باغ بھی تھا۔ ہم دونوں بہن بھائی سیر کرتے کرتے کچھ دور نکل آئے تھے۔ وہاں دیکھا تو ایک بہت بڑی اور خوبصورت حویلی زیرِ تعمیر تھی لیکن اندر باہر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید آج ویک اینڈ کی وجہ سے چھٹی ہو اس لیے کام بند ہو۔ میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے 4 بج رہے تھے اور ہم گھر سے 3 بجے نکلے تھے۔میری بہن کو بھی وہ حویلی بہت شاندار گی تھی، تبھی اس نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں یہ حویلی اندر سے دیکھنی چاہیے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہوتا، میں تو خود اپنی بہن کے ساتھ سنسان سے سنسان جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ ہم حویلی کے احاطے میں داخل ہو گئے جو کہ اندر سے بھی ابھی پوری طرح نہیں بنی تھی لیکن اس کے باوجود کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ یقیناً کسی بہت بڑے زمیندار کی ملکیت ہو گی۔ ہم ابھی حویلی کو اندر سے گھوم پھر کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک کہیں سے پنجابی گانے کی اونچی سی آواز سنائی دی۔
میری بہن بولی "یہ گانوں کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا"۔
میں نے کہا "آؤ! دیکھتے ہیں۔۔۔ شاید کوئی چوکیدار یہاں رہتا ہو اور اسی نے گانے لگائے ہوئے ہوں"۔
ہم آواز کے تعاقب میں ایک زیرِ تعمیر کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں اور گانوں کی آواز بھی اسی تہہ خانے سے آ رہی تھی۔ میں اور میری بہن یہ سوچ کر نیچے اترنے لگے کہ یقیناً کوئی چوکیدار ہو گا لیکن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر ایک موڑ مڑ کر ہم تہہ خانے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کمرے کا منظر دیکھ کر ہماری سٹی گم ہو گئی، میرا بھی چہرا سرخ ہو گیا تھا اور میری بہن نے تو مارے شرم کے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ وہاں تقریباً 8 لڑکے بیٹھے ہوئے شراب اور سگریٹ پی رہے تھے اور ان کے درمیان 2 لڑکیاں جو رنڈیاں لگ رہی تھیں سر سے پاؤں تک ننگی ناچ رہی تھیں۔
میری بہن نے مجھ سے کہا "چلو بھائی چلیں! یہ اچھے لوگ نہیں ہیں"۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ان میں سے ایک لڑکے کی نظر ہم پر پڑ گئی اور وہ ہمیں دیکھ کر زور سے چیختا ہوا بولا "اوئے کون ہو ہو تم؟" اور اس کی آواز پر اس کی نظروں کے تعاقب میں سب ہماری جانب دیکھنے لگے۔
میں نے کہا "سوری بھائی! ہم غلطی سے آ گئے تھے اس طرف۔۔۔ آپ فکر نہ کریں ہم جا رہے ہیں"۔
ان میں سے ایک لڑکے نے پستول نکال کر ہم پر تان لیا اور بولا "اوئے زیادہ ہوشیاری نہ دکھاؤ۔۔۔ اندر آؤ"۔ میں اور میری بہن ڈرتے ڈرتے اندر چلے آئے۔ میری بہن نے اپنا دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر اور سینے پر لے لیا تھا۔ میں نے اندر آ کر کہا "بھائی! میں سوری کرتا ہوں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ لوگ نیچے ہو"۔
پستول والا لڑکا بولا "اوئے تجھے کس نے بھیجا ہے اور یہ لڑکی کون ہے؟"
میں نے کہا یہ میری چھوٹی بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے اتفاقاً آ گئے ہیں"۔
اس بات پر وہ لڑکے ہنس پڑے اور ان میں سے ایک بولا "ابے بھڑوے! یہ تیری بہن ہے یا گرل فرینڈ جسے تو یہاں چودنے کے لیے لایا ہے"۔
میں نے کہا "قسم سے بھائی یہ میری بہن ہے اور ہم یہاں سیر کرتے ہوئے آ گئے ہیں"۔ وہ رنڈیاں بھی مجرا بند کر کے کھڑی ہو کر ہماری طرف دیکھ کر اور میری باتوں پر ہنس رہی تھیں۔
ان میں سے ایک لڑکا بولا "اوئے بہن چود! کوئی اپنی بہن کو لے کر سنسان جگہوں پر آتا ہے کیا؟ ہمیں چوتیا سمجھتا ہے۔"
میں نے کہا "نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ میں قسم کھا رہا ہوں آپ کے سامنے"۔
وہ بولا "چل ٹھیک ہے۔۔۔ مان لیتے ہیں یہ تیری بہن ہے لیکن چیز تو مست ہے"۔ اس لڑکے نے ان رنڈیوں کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھا "کیوں بھئی! مست چیز ہے نا؟"
ایک رنڈی بولی شکل سے تو کم عمر ہی لگتی ہے لیکن پتا نہیں کتنوں سے چدوایا ہو گا"۔
مجھے بہت غصہ چڑھا اور میں نے اسے کہا "تو خود رنڈی ہے۔۔۔ میری بہن ایک شریف لڑکی ہے۔" اس پر وہ رنڈی ہنسنے لگی۔
میری بہن بہت گھبرائی اور سہمی ہوئی تھی اور اس نے شرم سے اپنا منہ دوسری طرف کر رکھا تھا۔ اس نے مجھے کہا "بھائی! چلو یہاں سے۔۔ ۔ان کے منہ نہ لگو"۔
میں نے بھی کہا "او کے چلو!" یہ سن کر ایک لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آیا اور بولا "گانڈو! تو اور تیری بہن یہاں آئے اپنی مرضی سے ہیں لیکن جاؤ گے ہماری مرضی سے"۔
میں نے اسے کہا "بد تمیزی مت کرو ہمارے ساتھ"۔
اس پر وہ ہنس پڑا اور بولا "اچھا! نہیں تو کیا کرے گا؟" ایک اور لڑکا اٹھ کر ہمارے پاس آ گیا اور اس لڑکے سے کہنے لگا "نہیں یار! انھیں ایسے مت بول! یہ ہماری بات مان لیں گے"۔
پھر وہ مجھ سے بولا "چل بتا! اپنی بہن کی کیا قیمت لے گا؟ ہمارا تیری بہن کی معصوم اور کمسن جوانی پر دل آ گیا ہے۔ صرف آج کی رات چودیں گے"۔
مجھے اس کی بات سن کر شدید غصہ آ گیا اور میں نے "کتے! تیری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی، یہ میری بہن ہے" کہہ کر اس کے منہ پر ایک تھپڑ جما دیا۔ یہ دیکھ کر سارے لڑکے اٹھ گئے اور مجھے پکڑ کر تھپڑ اور مکے مارنے لگے، میری بہن رونے لگی اور ان کی منتیں کرنے لگی کہ میرے بھائی کو چھوڑ دو پلیز۔ ایک لڑکے نے کہا "اس بہن چود کو باندھ دو"۔
یہ سن کر میری بہن ان کی مزید منتیں کرنے لگی "نہیں بھائی نہیں پلیز میرے بھائی کو چھوڑ دیں، ہمیں جانے دیں، پلیز!"
اس لڑکے نے میری بہن کی طرف دیکھا اور کہا "جانِ من! تیرے لیے تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں، لیکن پہلے تیری چوت ماروں گا اور پھر جو تو کہے گی وہ کروں گا۔"
میری بہن روتے ہوئے ہاتھ باندھ کر ان لڑکوں سے صرف اتنا کہہ رہی تھی "نہیں بھائی! پلیز نہیں، ہمیں جانے دیں بھائی!"
اس دوران مجھے ان سب نے پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا تھا لیکن میں انھیں گالیاں نکال رہا تھا اور کہہ رہا تھا "حرامزادو! میری بہن کو کچھ کہا تو میں تمھاری بہن چود دوں گا، گانڈ پھاڑ دوں گا تمہاری ماں چود دوں گا"۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور مجھے ایک زوردار تھپڑ مارا۔ میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ وہ تو غصے میں پاگل ہو گیا اور مجھے مکے اور ٹھڈے مارنے لگا۔
میری بہن یہ دیکھ کر مزید رونے لگی اور اس لڑکے کے پاس آ کر اس کے آگے ہاتھ باندھ کر بولی "پلیز میرے بھائی کو مت ماریں پلیز!"
وہ لڑکا مجھے مارنے سے رک گیا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگا "بہن چود! تیری بہن کا ہم آج وہ حال کریں گے کہ تو بھی ساری عمر یاد رکھے گا اور تیری بہن بھی"۔
دوسری طرف وہ دونوں رنڈیاں کھڑی ہنس رہی تھیں لیکن اس دوران انھوں نے اپنے برا اور انڈر ویئر پہن لیے تھے۔
ایک رنڈی بولی "مجھے تو یہ پکا بہن چود لگتا ہے جو اپنی سگی بہن کو لے کر سنسان حویلی میں آیا تھا"۔
ایک لڑکا بولا "اس لڑکے کا منہ بند کرو!" اس پر ایک رنڈی آگے بڑھی اور بولی "میں کرتی ہوں"۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا انڈرویئر اتارا اور اس کا گولا بنا کر میرے منہ میں گھسیڑ دیا۔ میں نے منہ ادھر ادھر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے اپنی گیلی اور بودار پینٹی میرے منہ میں گھسیڑ کر ہی دم لیا۔ سب لڑکے یہ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
میری بہن کا چہرالال سرخ ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے اس نے یہ سب کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لڑکے نے میری طرف دیکھا اور کہا "اب تیری بہن کو تیرے سامنے نچواؤں گا"۔ یہ کہہ کر اس نے پستول نکالی اور مجھ پر تانتے ہوئے میری بہن کو بولا "اگر اپنے بھائی کی زندگی بچانی ہے تو جلدی سے ناچنا شروع کر دے کتیا!"
میری بہن زور زور سے رونے لگی اور ہاتھ باندھ کر اس لڑکے سے معافی مانگنے لگی لیکن اس لڑکے نے ایک کرارا چانٹا میری معصوم بہن کے گال پر رسید کیا اور پستول کی نال میرے ماتھے پر لگا دی۔ میری بہن روتے ہوئے چیخی "نہیں! نہیں! میں ناچتی ہوں لیکن میرے بھائی کو کچھ نہ کہنا"۔ میں رسیوں میں بندھا ہوا تڑپ کر رہ گیا۔
انہوں نے ایک نہایت فحش پنجابی مجرے کا گانا لگا دیا "نیڑے آہ آہ ظالما وے!"۔ اس لچر گانے کے بول سن کر میری بہن کا چہرا مزید سرخ ہو گیا اور اس کی نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں، اس نے کبھی ڈانس نہیں کیا تھا بس فرینڈز کے ساتھ کالج میں یا خاندان کی ایک آدھ شادی پر کزنز کے ساتھ تھوڑا بہت۔ پہلے تو میری بہن چپ چاپ کھڑی رہی لیکن جب اس لڑکے نے اسے ڈانٹا تو وہ پہلے آہستہ آہستہ تھرکنے لگی لیکن لڑکوں کے بار بار ڈانٹنے اور دھمکانے پر تیز ڈانس کرنے لگی۔
ایک لڑکے نے میری بہن سے پوچھا "تیرا نام کیا ہے؟" وہ بولی "ثنا"۔
اس لڑکے نے کہا "ثنا! میری جان! اپنا دوپٹہ تو اتار، ہمیں تیرا بدن دیکھنا ہے"۔ لیکن میری بہن نے اپنا دوپٹہ نہ اتارا اور دوپٹے کے ساتھ ہی ناچتی رہی۔
ایک رنڈی آگے بڑھی اور کھینچ کر میری بہن کے گلے میں سے اس کا دوپٹہ اتار لیا جسے میری بہن نے واپس چھیننا چاہا تو اس رنڈی نے میری بہن کا دوپٹہ ایک لڑکے کی طرف اچھال دیا اور ایک طمانچہ میری بہن کے منہ پر لگاتے ہوئے بولی "گشتی! اب شرمانا اور نخرے کرنا چھوڑ اور سیدھی طرح ڈانس کر"۔
میری بہن نے ٹائٹ شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جو پہلے تو دوپٹے میں چھپی ہوئی تھی مگر دوپٹہ اترتے ہی اس کے بدن کے تمام ابھار نمایاں ہو گئے تھے۔ میری بہن کے ابھرے ہوئے پستان اور کولھے نظر آنے لگے تھے اور وہ بے حد سیکسی لگ رہی تھی۔ لڑکوں کے تو منہ میں پانی آنا ہی تھا میرا اپنا حال یہ تھا کہ اس آفت میں گھرا ہونے کے باوجود اپنی بہن کے جسم کے خطوط کو ہلتا ہو دیکھ کر ہلکا ہلکا لطف آنے لگا تھا۔ ایک لڑکا مجھ سے بولا "ہائے! تیری بہن تو سیکس بم ہے، میرا تو ابھی سے لنڈ کھڑا ہو گیا ہے"۔
ایک لڑکا بولا "آج ساری رات اس رنڈی کو چودیں گے یار یہ بہت مزے دار چیز ہے سالی"۔ میری بہن اپنے دونوں ہاتھ اپنی سینے پر رکھ کر اپنی چھاتیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس دوران ایک لڑکے نے اپنی پینٹ میں سے چمڑے کا لمبا سا بیلٹ نکال لیا تھا اور اسے میری بہن کے چہرے کے سامنے جھٹکتے ہوئے اسے بولا "گشتی! ہاتھ ہٹا مموں پر سے اور سیدھی طرح ڈانس کر ورنہ اس بیلٹ سے تیری چمڑی ادھیڑ دوں گا اور تیرے بھائی کو گولی مار دوں گا"۔
میری بہن اس لڑکے کے پاؤں میں گر گئی اور بولی "بس بھائی! میں نے آپ کے کہنے پر ڈانس کر لیا، اب ہمیں جانے دیں۔۔۔ ہمارے امی ابو کو پتا چل گیا تو پریشان ہوں گے"۔
ایک لڑکا بولا "ہاں یار کہیں ان کے ماں باپ پولیس میں رپورٹ نہ کروا دیں۔۔۔ کوئی مسئلہ نہ ہو جائے"۔ اس کی بات سن کر وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے۔
ایک رنڈی بولی "میں اس کی سہیلی بن کر اس کے گھر فون کر دیتی ہوں کہ یہ آج میرے ساتھ رکیں گے"۔ اس کا آئیڈیا سن کر سب نےا سے داد دی اور وہ رنڈی میری بہن سے بولی "چل اپنے گھر فون کر اور بتا کہ تو اپنی کسی سہیلی کی طرف رکے گی اور بھائی بھی تیرے ساتھ رکے گا"۔
میری بہن بولی "نہیں! میں یہ نہیں کروں گی"۔ اس رنڈی نے میری بہن کے منہ پر ایک تھپڑ لگایا اور جس لڑکے نے بیلٹ نکالی تھی اس نے بیلٹ کو بطور ہنٹر استعمال کرتے ہوئے میری بہن کو گالی دیتے ہوئے اس کی کمر پر ایک کرارا بیلٹ رسید کیا۔ بیلٹ کی چوٹ پڑتے ہی میری بہن کی زوردار چیخ نکلی اور وہ میرے پاس آ کر گر گئی۔ وہ رنڈی میرے پاس آ گئی اور میرے بال پکڑ کر میری بہن سے بولی "ثنا! تیرے بھائی کو ہم گولی مار دیں گے ورنہ۔۔۔"
میری بہن اس کی بات سن کر ڈر گئی اور سسکتے ہوئے "اچھا! کرتی ہوں" کہہ کر اقرار میں گردن ہلا دی۔ میری جیب سے موبائل فون تو ان لڑکوں نے پہلے ہی مجھے باندھنے کے دوران نکال لیا تھا۔ میری بہن کو انہوں نے وہ موبائل فون دیا جس سے اس نے گھر کا نمبر ملایا۔ اس دوران پستول والا لڑکا مسلسل پستول کی نال میری کنپٹی سے لگائے ہوئے تھا۔
امی نے فون اٹھایا تھا، میری بہن نے سلام کرنے کے بعد کہا "امی! آج میں اور بھائی میری سہیلی کے ہاں رکیں گے"۔
امی نے پوچھا "خیر تو ہے نا؟ کون سی سہیلی ہے؟"
میری بہن نے کہا "امی! وہ مجھے بہت دنوں کے بعد ملی ہے۔ سکول میں ہوتی تھی سلمیٰ"۔
اس کے بعد اس رنڈی نے فون میری بہن کے ہاتھ سے اچک لیا اور بولی "آنٹی! میں ہوں۔۔ اس کی سہیلی سلمیٰ! آپ فکر نہ کریں، یہ دونوں بہن بھائی آج ہمارے ہاں ہی رک رہے ہیں، کل آ جائیں گے"۔ کچھ دیر بعد امی شاید یہ سوچ کر مان گئیں کہ چلو بھائی بھی ساتھ ہے تو مسئلہ نہیں ہو گا۔ رنڈی نے فون آف کر دیا۔
میں سمجھ گیا تھا کہ آج رات میری بہن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، آٹھ مسٹنڈے میری بہن کو ساری رات نوچیں گے اور اس کی کنواری چوت کو پھاڑ کر بھوسڑا بنا دیں گے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
میری بہن دوبارہ رونے لگی تھی۔ وہ لڑکے بولے "چل ناچ اب زیادہ ناٹک نہ کر ورنہ۔۔۔" انہوں نے وہی گانا دوبارہ چلا دیا تھا اور میری بہن سسکتے ہوئے دوبارہ ان آٹھ لڑکوں کے سامنے ناچنے لگی۔ میری بہن کو ناچنا نہیں آتا تھا، وہ صحیح ڈھنگ سے ناچ نہیں پا رہی تھی لیکن بغیر دوپٹے کے ٹائٹ شلوار قمیض میں ناچتی وہ واقعی کوئی ٹاپ کلاس گشتی ہی لگ رہی تھی۔ گانا ختم ہوا تو میری بہن بے چاری ان ظالموں کے تھپڑ اور بیلٹ کھا کھا کر چیختے ہوئے ناچ ناچ کر بے حال ہو چکی تھی اور پسینے میں شرابور تھی۔ پسینہ آنے کی وجہ سے میری بہن کی قمیض بالکل ہی ٹرانسپیرنٹ سی ہو گئی تھی کیونکہ اس نے نیچے شمیز نہیں پہنی ہوئی تھی لہٰذا پسینے سے بھیگی لان کی قمیض اس کے بدن سے چپکنے کے باعث اس کا گورا پیٹ اور ناف اور کمر تو بالکل ہی عریاں نظر آ رہے تھے۔
اس دوران تمام لڑکے اپنی پینٹیں اتار چکے تھے اور میری بہن کا سیکسی مجرا کر اپنے لمبے موٹے لوڑے ہاتھوں میں لےکر مسل رہے تھے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں