میں صائمہ ہوں، 30 سال کی بہت ہی خوبصورت عورت، میرے شوہر دانش بزنس مین ہیں۔ میں آپ کو اس واقعہ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو آج سے کوئی دس سال پہلے پیش آیا تھا، اس واقعے نے میری زندگی ہی بدل دی۔۔۔
میرے جسمانی تعلقات میری سہیلی کے شوہر سے ہیں اور اس کے لیے وہی قصوروار ہے۔ میرے دو بچوں میں سے ایک کا باپ دانش نہیں بلکہ میری سہیلی کا شوہر ہے۔
اس وقت میں پڑھائی کر رہی تھی۔ میری ایک پیاری سی سہیلی ہے، نام ہے عاشی۔ ویسے آج کل وہ میری نند ہے، دانش عاشی کا ہی بھائی ہے، عاشی کے بھائی سے شادی کرنے کے لیے مجھے ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہم دونوں کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، ہماری جوڑی بہت مشہور تھی، ہم دونوں ہی بہت خوبصورت اور چھریرے بدن کی مالک تھیں، بدن کے کٹاؤ بڑے ہی سیکسی تھے، میری چھاتیاں عاشی سے بھی بڑی تھیں لیکن ایک دم ٹائٹ۔
ہم اکثر ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ میرا عاشی کے گھر جانے کا مقصد ایک اور بھی تھا، اس کا بھائی دانش۔ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، اس وقت وہ بی ٹیک کر رہا تھا۔ بہت ہینڈسم اور خوبصورت بدن کا مالک ہے دانش! میں اس سے دل ہی دل محبت کرنے لگی تھی۔ دانش بھی شاید مجھے پسند کرتا تھا۔ لیکن منہ سے کبھی کہا نہیں۔ میں نے اپنا دل عاشی کے سامنے کھول دیا تھا۔ ہم آپس میں لڑکوں کی باتیں بھی کرتے تھے۔
مصیبت تب آئی جب عاشی سکندر کی محبت میں پڑ گئی۔ سکندر کالج یونین کا لیڈر تھا۔ اس میں ہر طرح کی بری عادتیں تھی۔ وہ ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا۔۔۔ اس کے والد ایک مشہور صنعت کار تھے، کھلی کمائی تھی اور بیٹا اس کمائی کو اپنی عیاشی میں خرچ کر رہا تھا، دو سال سے فیل ہو رہا تھا۔
سکندر مجھ پر بھی گندی نظر رکھتا تھا پر میں اس سے بری طرح نفرت کرتی تھی، میں نے اس سے دور ہی رہتی تھی۔ عاشی پتہ نہیں کس طرح اس کی محبت میں پڑ گئی۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے کافی منع کیا لیکن اس نے میری بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ تو سکندر کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔
ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ سکندر سے جسمانی تعلق بھی قائم ہو چکا ہے۔ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا مگر وہ تھی گویا چکنا گھڑا اس پر کوئی بھی بات اثر نہیں کر رہی تھی۔
ایک دن میں اکیلی سٹوڈنٹ روم میں بیٹھی کچھ تیاری کر رہی تھی، اچانک سکندر وہاں آ گیا اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنا سر گھما لیا۔ اس نے مجھے باہوں سے پکڑ کر اٹھا دیا۔
میں نے کہا: کیا بات ہے؟ کیوں پریشان کر رہے ہو؟
سکندر بولا - تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
"میں تیرے جیسے آدمی کے منہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی! " میں نے کہا، تو وہ غصے سے تلملا گیا۔ اس نے مجھے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا اور تپاک سے ایک چما میرے ہونٹوں پر دے دیا۔
میں ایک دم ہکی بکی رہ گئی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی پبلک مقام پر ایسا بھی کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سنبھلتی، اس نے میرے دونوں ممے پکڑ کر مسل دیے، میرے نپلز انگلیوں میں بھر کے کھینچ لیے اور قمیض کے اوپر سے ہی منہ لگا کر دانت سے کاٹ لیا۔ میں فورا وہاں سے جانے لگی تو اس نے شلوار کے اوپر سے ہی میرے چوتڑ پکڑ کر مجھے اپنے بدن کے ساتھ چپکا لیا، مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا موٹا لنڈ پیچھے سے میری رانوں میں سے گزر کر میری چوت پر گڑا جا رہا تھا۔
میں نے کہا: مجھے کوئی بازاری لڑکی مت سمجھنا، جو تیری بانہوں میں آ جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں نے گھوم کر اس کے منہ پر ایک چانٹا جما دیا۔
تبھی کسی کے قدموں کی آواز سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔
اس کے بعد سارا دن موڈ خراب رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی میری چوچیوں کو مسل رہا ہو، بہت غصہ آ رہا تھا۔ دونوں چھاتیاں چھونے سے ہی درد کر رہی تھیں۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنے کمرے میں آ کر جب کپڑے اتار کر اپنی گوری گوری چھاتیوں کو دیکھا تو رونا ہی آ گیا، گوری چھاتیوں پر مسلے جانے سے نیلے نیلے نشان پڑے صاف نظر آ رہے تھے۔
شام کو عاشی آئی: آج سنا ہے تم سکندر سے لڑ پڑیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا: لڑ پڑی؟ میں نے اسے ایک جم کر چانٹا مارا۔ اور اگر وہ اب بھی نہیں سدھرا تو میں اس کا چپلوں سے استقبال کروں گی۔۔۔ سالا لوفر!
عاشی: ارے کیوں غصہ کرتی ہو۔ تھوڑا سا اگر چھیڑ ہی دیا تو اس طرح کیوں بگڑ رہی ہے؟ وہ تیرا ہونے والا نندوئی ہے۔ رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ تو چلتی ہی رہتی ہے۔
میں: تھوڑی چھیڑ چھاڑ مائی فٹ! دیکھے گی، کیا کیا اس تیرے آوارہ عاشق نے؟ میں نے یہ کہہ کر اپنی قمیض اوپر کرکے اسے اپنی چھاتیاں دکھائیں۔
عاشی: چچچ۔۔۔ کتنی بری طرح مسلا ہے سکندر نے! وہ ہنس رہی تھی۔ مجھے غصہ آ گیا مگر اس کی منتوں سے میں آخر ہنس دی۔ لیکن میں نے اس کہہ دیا کہ آپ اس آوارہ عاشق کو کہہ دینا میرے چکر میں مت رہے۔ میرے آگے اس کی نہیں چلنی!
بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ عاشی کچھ اداس رہنے لگی ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے نہیں بتایا۔ مجھ سے اس کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا: صائمہ، تیرے پریمی کے لیے لڑکی ڈھونڈی جا رہی ہے۔
میں تو گویا آسمان سے زمین پر گر پڑی "کیا۔۔۔ ؟؟؟"
"ہاں صائمہ! بھیا کے لیے رشتے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جلدی کچھ کر، نہیں تو اسے کوئی اور لے جائے گی اور تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔
"لیکن میں کیا کروں؟"
"تو بھیا سے بات کر!"
میں نے دانش سے بات کی۔
لیکن وہ اپنے ممی پاپا کو سمجھانے میں ناکام تھا۔ مجھے تو ہر طرف اندھیرا ہی دکھ رہا تھا۔ تبھی عاشی ایک روشنی کی طرح آئی۔۔۔
"بڑی جلدی گھبرا گئی؟ ارے ہمت سے کام لے!"
"مگر میں کیا کروں؟ دانش بھی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔"
"میں تیری شادی دانش سے کروا سکتی ہوں۔" عاشی نے کہا تو میں اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"لیکن۔۔۔ کیوں؟"
"کیوں؟ میں تیری سہیلی ہوں ہم دونوں زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسم کھاتے تھے۔ بھول گئی؟"
"مجھے یاد ہے سب، لیکن تجھے بھی یاد ہے یا نہیں، میں یہ دیکھ رہی تھی۔"
اس نے کہا: میں ممی پاپا کو منا لوں گی تمہاری شادی کے لیے مگر اس کے بدلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا!
"ہاں ہاں، بول نا! کیا چاہتی ہے مجھ سے؟" مجھے لگا جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔
"دیکھ تجھے تو معلوم ہی ہے کہ میں اور سکندر ساری حدود پار کر چکے ہیں، میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔" اس نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا۔۔۔ "تو میری شادی سکندر سے کروا دے، میں تیری شادی دانش سے کروا دوں گی!"
میں نے گھبراتے ہوئے کہا: میں تیرے ممی پاپا سے بات چلا کر دیکھوں گی۔
عاشی بولی: ارے، میرے ممی پاپا کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام تو میں خود ہی کر لوں گی!
"پھر کیا پریشانی ہے تیری؟"
"سکندر۔۔۔! " اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، "سکندر نے مجھ سے شادی کرنے کی ایک شرط رکھی ہے۔"
"کیا؟" میں نے پوچھا۔
"تم! " اس نے کہا تو میں اچھل پڑی، "کیا؟۔۔۔ کیا کہا؟" میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"ہاں، اس نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے تبھی شادی کر سکتا ہے جب میں تجھے اس کے پاس لے جاؤں۔"
"اور تُو نے۔۔۔ تُو نے مان لیا؟" میں چلّائی۔
"آہستہ بول، ممی کو پتہ چل جائے گا۔ وہ تجھے ایک بار پیار کرنا چاہتا ہے، میں نے اسے بہت سمجھایا مگر اسے منانا میرے بس میں نہیں ہے۔"
"تجھے معلوم ہے کہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟" میں نے غرّا کر اس سے پوچھا۔
"ہاں! میں اپنی پیاری سہیلی سے اپنے پیار کی بھیک مانگ رہی ہوں۔۔۔ تُو سکندر کے پاس چلی جا، میں تجھے اپنی بھابھی بنا لوں گی!"
میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکلی۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
عاشی نے کہا: اگر تو نے مجھے مایوس کیا تو میں بھی تجھے کوئی ہیلپ نہیں کروں گی۔
میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر گھر چلی آئی۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔
دانش کے بغیر میں نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے اپنی سب سے بڑی دولت گنوانی پڑ رہی تھی۔
رات کو کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ صبح میں نے ایک فیصلہ کر لیا۔ میں عاشی سے ملی اور کہا، "ٹھیک ہے، تم جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ سکندر کو کہنا کہ میں تیار ہوں۔" وہ سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑی۔
"لیکن صرف ایک بار! اور ہاں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ایک بات اور۔۔۔"
عاشی نے کہا: ہاں بول جان! تیرے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔"
"اس کے بعد تو میری شادی اپنے بھائی سے کروا دے گی اور تیری شادی ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں ہوں۔" میں نے اس سے کہا۔
وہ تو اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ عاشی نے اگلے دن مجھے بتایا کہ سکندر مجھے ہوٹل پارک ویو میں ملے گا۔ وہاں اس کا سویٹ بک ہے۔ ہفتہ شام 8 بجے وہاں پہنچنا تھا۔ عاشی نے میرے گھر پر چل کر میری امی سے بات کر کے مجھے ہفتے کی رات اپنے گھر رکنے کے لیے منا لیا۔
میں چپ رہی۔ ہفتہ کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا برا حال ہو رہا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں ٹھیک کر رہی ہوں یا نہیں۔ ہفتہ کی صبح سے ہی میں کمرے سے باہر نہیں نکلی، شام کو عاشی آئی، اس نے امی کو منایا مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے، اس نے امی سے کہا کہ ہم دونوں سہیلیاں رات بھر پڑھائی کریں گی اور میں ان کے گھر رات کو رک جاؤں گی۔
اس نے بتا دیا کہ وہ مجھے اتوار کو چھوڑ جائے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ مجھے سنیچر کی رات اس کے ساتھ نہیں بلکہ اس آوارہ بدمعاش سکندر کے ساتھ گزارنی تھی۔
ہم دونوں تیار ہوکر نکلے۔ میں نے ہلکا سا میک اپ کیا۔ ایک سادہ سا کرتہ پہن کر نکلنا چاہتی تھی مگر عاشی مجھ سے الجھ پڑی، اس نے مجھے خوب سجایا سنوارا۔
پھر ہم نکلے۔ وہاں سے نکلتے نکلتے شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔
"عاشی، مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ مجھے بہت ذلیل کرے گا۔ پتہ نہیں میری کیا حالت بنائے!" میں نے عاشی کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں، میرا سکندر ایسا نہیں ہے!"
میں نے کہا: ایسا نہیں ہے؟ سالا لوفر! میں جانتی ہوں کتنی لڑکیوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ تو وہاں میرے ساتھ رہے گی۔ رات کو تو بھی وہیں رکے گی۔
"نہیں! میں نہیں جاؤں گی۔"
"نہیں نہیں، تو میرے ساتھ ہی رہے گی۔"
"نہیں نا جان! سکندر نے منع کیا ہے مجھے ساتھ رکنے سے۔۔۔ لیکن تو گھبرا مت، میں اسے سمجھا دوں گی۔ وہ تیرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے گا۔"
میرے جسمانی تعلقات میری سہیلی کے شوہر سے ہیں اور اس کے لیے وہی قصوروار ہے۔ میرے دو بچوں میں سے ایک کا باپ دانش نہیں بلکہ میری سہیلی کا شوہر ہے۔
اس وقت میں پڑھائی کر رہی تھی۔ میری ایک پیاری سی سہیلی ہے، نام ہے عاشی۔ ویسے آج کل وہ میری نند ہے، دانش عاشی کا ہی بھائی ہے، عاشی کے بھائی سے شادی کرنے کے لیے مجھے ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہم دونوں کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، ہماری جوڑی بہت مشہور تھی، ہم دونوں ہی بہت خوبصورت اور چھریرے بدن کی مالک تھیں، بدن کے کٹاؤ بڑے ہی سیکسی تھے، میری چھاتیاں عاشی سے بھی بڑی تھیں لیکن ایک دم ٹائٹ۔
ہم اکثر ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ میرا عاشی کے گھر جانے کا مقصد ایک اور بھی تھا، اس کا بھائی دانش۔ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، اس وقت وہ بی ٹیک کر رہا تھا۔ بہت ہینڈسم اور خوبصورت بدن کا مالک ہے دانش! میں اس سے دل ہی دل محبت کرنے لگی تھی۔ دانش بھی شاید مجھے پسند کرتا تھا۔ لیکن منہ سے کبھی کہا نہیں۔ میں نے اپنا دل عاشی کے سامنے کھول دیا تھا۔ ہم آپس میں لڑکوں کی باتیں بھی کرتے تھے۔
مصیبت تب آئی جب عاشی سکندر کی محبت میں پڑ گئی۔ سکندر کالج یونین کا لیڈر تھا۔ اس میں ہر طرح کی بری عادتیں تھی۔ وہ ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا۔۔۔ اس کے والد ایک مشہور صنعت کار تھے، کھلی کمائی تھی اور بیٹا اس کمائی کو اپنی عیاشی میں خرچ کر رہا تھا، دو سال سے فیل ہو رہا تھا۔
سکندر مجھ پر بھی گندی نظر رکھتا تھا پر میں اس سے بری طرح نفرت کرتی تھی، میں نے اس سے دور ہی رہتی تھی۔ عاشی پتہ نہیں کس طرح اس کی محبت میں پڑ گئی۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے کافی منع کیا لیکن اس نے میری بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ تو سکندر کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔
ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ سکندر سے جسمانی تعلق بھی قائم ہو چکا ہے۔ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا مگر وہ تھی گویا چکنا گھڑا اس پر کوئی بھی بات اثر نہیں کر رہی تھی۔
ایک دن میں اکیلی سٹوڈنٹ روم میں بیٹھی کچھ تیاری کر رہی تھی، اچانک سکندر وہاں آ گیا اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنا سر گھما لیا۔ اس نے مجھے باہوں سے پکڑ کر اٹھا دیا۔
میں نے کہا: کیا بات ہے؟ کیوں پریشان کر رہے ہو؟
سکندر بولا - تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
"میں تیرے جیسے آدمی کے منہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی! " میں نے کہا، تو وہ غصے سے تلملا گیا۔ اس نے مجھے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا اور تپاک سے ایک چما میرے ہونٹوں پر دے دیا۔
میں ایک دم ہکی بکی رہ گئی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی پبلک مقام پر ایسا بھی کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سنبھلتی، اس نے میرے دونوں ممے پکڑ کر مسل دیے، میرے نپلز انگلیوں میں بھر کے کھینچ لیے اور قمیض کے اوپر سے ہی منہ لگا کر دانت سے کاٹ لیا۔ میں فورا وہاں سے جانے لگی تو اس نے شلوار کے اوپر سے ہی میرے چوتڑ پکڑ کر مجھے اپنے بدن کے ساتھ چپکا لیا، مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا موٹا لنڈ پیچھے سے میری رانوں میں سے گزر کر میری چوت پر گڑا جا رہا تھا۔
میں نے کہا: مجھے کوئی بازاری لڑکی مت سمجھنا، جو تیری بانہوں میں آ جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں نے گھوم کر اس کے منہ پر ایک چانٹا جما دیا۔
تبھی کسی کے قدموں کی آواز سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔
اس کے بعد سارا دن موڈ خراب رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی میری چوچیوں کو مسل رہا ہو، بہت غصہ آ رہا تھا۔ دونوں چھاتیاں چھونے سے ہی درد کر رہی تھیں۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنے کمرے میں آ کر جب کپڑے اتار کر اپنی گوری گوری چھاتیوں کو دیکھا تو رونا ہی آ گیا، گوری چھاتیوں پر مسلے جانے سے نیلے نیلے نشان پڑے صاف نظر آ رہے تھے۔
شام کو عاشی آئی: آج سنا ہے تم سکندر سے لڑ پڑیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا: لڑ پڑی؟ میں نے اسے ایک جم کر چانٹا مارا۔ اور اگر وہ اب بھی نہیں سدھرا تو میں اس کا چپلوں سے استقبال کروں گی۔۔۔ سالا لوفر!
عاشی: ارے کیوں غصہ کرتی ہو۔ تھوڑا سا اگر چھیڑ ہی دیا تو اس طرح کیوں بگڑ رہی ہے؟ وہ تیرا ہونے والا نندوئی ہے۔ رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ تو چلتی ہی رہتی ہے۔
میں: تھوڑی چھیڑ چھاڑ مائی فٹ! دیکھے گی، کیا کیا اس تیرے آوارہ عاشق نے؟ میں نے یہ کہہ کر اپنی قمیض اوپر کرکے اسے اپنی چھاتیاں دکھائیں۔
عاشی: چچچ۔۔۔ کتنی بری طرح مسلا ہے سکندر نے! وہ ہنس رہی تھی۔ مجھے غصہ آ گیا مگر اس کی منتوں سے میں آخر ہنس دی۔ لیکن میں نے اس کہہ دیا کہ آپ اس آوارہ عاشق کو کہہ دینا میرے چکر میں مت رہے۔ میرے آگے اس کی نہیں چلنی!
بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ عاشی کچھ اداس رہنے لگی ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے نہیں بتایا۔ مجھ سے اس کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا: صائمہ، تیرے پریمی کے لیے لڑکی ڈھونڈی جا رہی ہے۔
میں تو گویا آسمان سے زمین پر گر پڑی "کیا۔۔۔ ؟؟؟"
"ہاں صائمہ! بھیا کے لیے رشتے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جلدی کچھ کر، نہیں تو اسے کوئی اور لے جائے گی اور تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔
"لیکن میں کیا کروں؟"
"تو بھیا سے بات کر!"
میں نے دانش سے بات کی۔
لیکن وہ اپنے ممی پاپا کو سمجھانے میں ناکام تھا۔ مجھے تو ہر طرف اندھیرا ہی دکھ رہا تھا۔ تبھی عاشی ایک روشنی کی طرح آئی۔۔۔
"بڑی جلدی گھبرا گئی؟ ارے ہمت سے کام لے!"
"مگر میں کیا کروں؟ دانش بھی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔"
"میں تیری شادی دانش سے کروا سکتی ہوں۔" عاشی نے کہا تو میں اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"لیکن۔۔۔ کیوں؟"
"کیوں؟ میں تیری سہیلی ہوں ہم دونوں زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسم کھاتے تھے۔ بھول گئی؟"
"مجھے یاد ہے سب، لیکن تجھے بھی یاد ہے یا نہیں، میں یہ دیکھ رہی تھی۔"
اس نے کہا: میں ممی پاپا کو منا لوں گی تمہاری شادی کے لیے مگر اس کے بدلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا!
"ہاں ہاں، بول نا! کیا چاہتی ہے مجھ سے؟" مجھے لگا جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔
"دیکھ تجھے تو معلوم ہی ہے کہ میں اور سکندر ساری حدود پار کر چکے ہیں، میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔" اس نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا۔۔۔ "تو میری شادی سکندر سے کروا دے، میں تیری شادی دانش سے کروا دوں گی!"
میں نے گھبراتے ہوئے کہا: میں تیرے ممی پاپا سے بات چلا کر دیکھوں گی۔
عاشی بولی: ارے، میرے ممی پاپا کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام تو میں خود ہی کر لوں گی!
"پھر کیا پریشانی ہے تیری؟"
"سکندر۔۔۔! " اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، "سکندر نے مجھ سے شادی کرنے کی ایک شرط رکھی ہے۔"
"کیا؟" میں نے پوچھا۔
"تم! " اس نے کہا تو میں اچھل پڑی، "کیا؟۔۔۔ کیا کہا؟" میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"ہاں، اس نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے تبھی شادی کر سکتا ہے جب میں تجھے اس کے پاس لے جاؤں۔"
"اور تُو نے۔۔۔ تُو نے مان لیا؟" میں چلّائی۔
"آہستہ بول، ممی کو پتہ چل جائے گا۔ وہ تجھے ایک بار پیار کرنا چاہتا ہے، میں نے اسے بہت سمجھایا مگر اسے منانا میرے بس میں نہیں ہے۔"
"تجھے معلوم ہے کہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟" میں نے غرّا کر اس سے پوچھا۔
"ہاں! میں اپنی پیاری سہیلی سے اپنے پیار کی بھیک مانگ رہی ہوں۔۔۔ تُو سکندر کے پاس چلی جا، میں تجھے اپنی بھابھی بنا لوں گی!"
میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکلی۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
عاشی نے کہا: اگر تو نے مجھے مایوس کیا تو میں بھی تجھے کوئی ہیلپ نہیں کروں گی۔
میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر گھر چلی آئی۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔
دانش کے بغیر میں نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے اپنی سب سے بڑی دولت گنوانی پڑ رہی تھی۔
رات کو کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ صبح میں نے ایک فیصلہ کر لیا۔ میں عاشی سے ملی اور کہا، "ٹھیک ہے، تم جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ سکندر کو کہنا کہ میں تیار ہوں۔" وہ سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑی۔
"لیکن صرف ایک بار! اور ہاں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ایک بات اور۔۔۔"
عاشی نے کہا: ہاں بول جان! تیرے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔"
"اس کے بعد تو میری شادی اپنے بھائی سے کروا دے گی اور تیری شادی ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں ہوں۔" میں نے اس سے کہا۔
وہ تو اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ عاشی نے اگلے دن مجھے بتایا کہ سکندر مجھے ہوٹل پارک ویو میں ملے گا۔ وہاں اس کا سویٹ بک ہے۔ ہفتہ شام 8 بجے وہاں پہنچنا تھا۔ عاشی نے میرے گھر پر چل کر میری امی سے بات کر کے مجھے ہفتے کی رات اپنے گھر رکنے کے لیے منا لیا۔
میں چپ رہی۔ ہفتہ کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا برا حال ہو رہا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں ٹھیک کر رہی ہوں یا نہیں۔ ہفتہ کی صبح سے ہی میں کمرے سے باہر نہیں نکلی، شام کو عاشی آئی، اس نے امی کو منایا مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے، اس نے امی سے کہا کہ ہم دونوں سہیلیاں رات بھر پڑھائی کریں گی اور میں ان کے گھر رات کو رک جاؤں گی۔
اس نے بتا دیا کہ وہ مجھے اتوار کو چھوڑ جائے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ مجھے سنیچر کی رات اس کے ساتھ نہیں بلکہ اس آوارہ بدمعاش سکندر کے ساتھ گزارنی تھی۔
ہم دونوں تیار ہوکر نکلے۔ میں نے ہلکا سا میک اپ کیا۔ ایک سادہ سا کرتہ پہن کر نکلنا چاہتی تھی مگر عاشی مجھ سے الجھ پڑی، اس نے مجھے خوب سجایا سنوارا۔
پھر ہم نکلے۔ وہاں سے نکلتے نکلتے شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔
"عاشی، مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ مجھے بہت ذلیل کرے گا۔ پتہ نہیں میری کیا حالت بنائے!" میں نے عاشی کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں، میرا سکندر ایسا نہیں ہے!"
میں نے کہا: ایسا نہیں ہے؟ سالا لوفر! میں جانتی ہوں کتنی لڑکیوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ تو وہاں میرے ساتھ رہے گی۔ رات کو تو بھی وہیں رکے گی۔
"نہیں! میں نہیں جاؤں گی۔"
"نہیں نہیں، تو میرے ساتھ ہی رہے گی۔"
"نہیں نا جان! سکندر نے منع کیا ہے مجھے ساتھ رکنے سے۔۔۔ لیکن تو گھبرا مت، میں اسے سمجھا دوں گی۔ وہ تیرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے گا۔"
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں