پیر، 25 اگست، 2014

میری محبت کی قیمت - قسط 3

صبح ساڑھے نو بجے کسی کے دروازے کی گھنٹی بجائے جانے پر نیند کھلی تو میں نے پایا کہ میرا پورا بدن درد کر رہا تھا۔ میں نے اپنے جسم کا جائزہ لیا۔ میں بستر پر آخری چدائی کے وقت جیسے لیٹی تھی، ابھی تک اسی طرح ہی لیٹی ہوئی تھی۔ انگلش کے X حروف کی طرح۔
سنی شاید صبح اٹھ کر جا چکا تھا۔ سکندر نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
تیزی سے عاشی اندر آئی بستر پر مجھ پر نظر پڑتے ہی چیخ اٹھی - سکندر، صائمہ کی کیا حالت بنائی ہے تم نے؟ تم پورے وحشی ہو۔ بیچاری کے پھول جیسے بدن کو کس بری طرح کچل ڈالا ہے؟
وہ بستر پر بیٹھ کر میرے چہرے پر اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
"ٹیسٹی مال ہے! " سکندر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بے ہودگی سے کہا۔
عاشی مجھے سہارا دے کر باتھ روم میں لے گئی۔ میں باتھ روم میں جاتے ہی اس سے لپٹ کر رو پڑی۔ اس نے مجھے غسل دیا۔ میں نہا کر کافی تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔ کپڑے باہر بستر پر ہی پڑے تھے۔ برا اور پینٹی کے تو چیتھڑے اڑ چکے تھے۔ شلوار کا ناڑا بھی انہوں نے توڑ دیا تھا۔ ہم اسی حالت میں کمرے میں آئے۔
اب اتنا سب ہونے کے بعد پوری ننگی حالت میں سکندر کے سامنے آنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
وہ بستر کے سرہانے پر بیٹھ کر میرے بدن کو بڑی ہی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اپنے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، اس نے میرے کپڑوں کو کھینچ لیا۔ ہم دونوں سہیلیوں کی نظر اس کی طرف اٹھ گئی۔
"نہیں، ابھی نہیں! " اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ابھی جانے سے پہلے ایک بار اور! "نہییییں! " میرے منہ سے اس کی بات سنتے ہی نکل گیا۔
"اب کیا جان لو گے اس کی؟ رات بھر تو تم نے اسے مسلا ہے۔ اب تو چھوڑ دو اسے! " عاشی نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس کے منہ پر تو میرے خون کا ذائقہ چڑھ چکا تھا۔ "نہیں، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ تُو بھی تو دیکھ اپنی سہیلی کو چدواتے ہوئے! " سکندر ایک بھدی سی ہنسی ہنسا۔ پتہ نہیں عاشی کیسے اس کے چکر میں پڑ گئی تھی۔
اس نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عاشی سے کہا، "چل اسے منہ میں لے کر کھڑا کر! " عاشی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا لیکن وہ بے ہودوں کی طرح ہنستا رہا۔ اس نے عاشی کو کھینچ کر پاس پڑی ایک کرسی پر بٹھا دیا اور اپنا لنڈ چوسنے کو کہا۔ عاشی اس ڈھیلے لنڈ کو کچھ دیر تک ایسے ہی ہاتھ سے سہلاتی رہی، پھر اسے منہ میں لے لیا۔
سکندر نے عاشی کی قمیض اور برا اتار دی۔ زندگی میں پہلی بار ہم دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے سامنے ننگی ہوئی تھیں۔ عاشی کا بدن بھی کافی خوبصورت تھا۔ بڑے بڑے ابھار، پتلی کمر کسی بھی لڑکے کو دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھا۔
سکندر میرے سامنے ہی اس کی چھاتیوں کو سہلانے لگا، ایک ہاتھ سے عاشی کا سر پکڑ رکھا تھا دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل مسل رہا تھا، چہرے سے لگ رہا تھا کہ عاشی گرم ہونے لگی ہے۔ میں بستر پر بیٹھ کر ان دونوں کی راس لیلا دیکھ رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں شامل کیے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔
میں نے اپنے بدن پر نظر دوڑائی، میرے دونوں مموں پر ان دونوں درندوں کے دانتوں کے نشان تھے، میری چوت سوجی ہوئی تھی، رانوں پر بھی دانتوں کے نشان تھے، دونوں نپلز بھی سوجے ہوئے تھے۔ عاشی نے کوئی پین کلر کھلائی تھی باتھ روم میں، اس کی وجہ درد کچھ کم ہوا تھا۔ درد کچھ کم ہوتے ہی میں ان دونوں کا کھیل دیکھ دیکھ کر کچھ گرم ہونے لگی۔
سکندر کا لنڈ کھڑا ہونے لگا۔ سکندر مسلسل عاشی کے منہ کو چود رہا تھا، اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اس نے رات بھر میری چوت میں منی ڈالی ہے۔ مجھے تو پیروں کو سکوڑ کر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی اور وہ تھا کہ سانڈ کی طرح میری حالت اور بھی بری کرنے کے لیے تیار تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے اتنی گرمی تھی اس کے اندر۔
اس کا لنڈ کچھ ہی دیر میں ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس نے عاشی کو کھڑا کرکے اس کی شلوار اور انڈرویئر اتار اسے بھی پوری طرح ننگی کر دیا۔ عاشی کو واپس کرسی پر بٹھا کر اس کی چوت میں اپنی انگلی ڈال دی۔ انگلی جب باہر نکلی تو وہ عاشی کے رس سے گیلی ہو رہی تھی۔ سکندر نے اس انگلی کو میرے ہونٹوں سے ٹچ کیا: لے چکھ کر دیکھ! کیسی مست چیز ہے تیری سہیلی!
میں منہ نہیں کھول رہی تھی مگر اس نے زبردستی میرے منہ میں انگلی گھسا دی۔ عجیب سا لگا عاشی کے رس کو چکھنا۔
"پوری طرح مست ہو گئی ہے تیری سہیلی! " اس نے مجھ سے کہا۔
اس نے اب اپنا لنڈ عاشی کے منہ سے نکال لیا، اس کا بڑا لنڈ عاشی کے تھوک سے چمک رہا تھا۔ پھر مجھے اٹھا کر اس عاشی پر جھکا دیا، کچھ اس طرح کہ میرے دونوں ہاتھ عاشی کے کندھوں پر تھے، میں اس کے کندھوں کا سہارا لیے جھکی ہوئی تھی، میرے بوبس عاشی کے چہرے کے سامنے جھول رہے تھے۔ سکندر نے میری ٹانگوں کو پھیلایا اور میری چوت میں اپنا لوڑا ڈالا۔
لنڈ جیسے جیسے اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میری چوت کی دیواروں پر ریگ مار گھس رہا ہو۔ میں درد سے "آ آآ ااہ افففف!" کر اٹھی۔
پتہ نہیں کتنی دیر اور کرے گا؟ اب تو مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ وہ مجھے پیچھے سے دھکے لگانے لگا تو میرے ممے جھول جھول کر عاشی کے چہرے سے ٹکرانے لگے۔ عاشی بھی مستی میں آ گئی تھی اور مستی میں کسمسا رہی تھی، وہ پہلی بار مجھے اس حالت میں دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں بہت پکی سہیلیاں ضرور تھیں مگر لیزبین نہیں تھیں۔
سکندر نے میرا ایک نپل اپنی انگلی پکڑ کر کھینچا۔ میں نے درد سے بچنے کے لیے اپنے بدن کو آگے کی طرف جھکا دیا۔ اس نے میرے نپل کو عاشی کے ہونٹوں سے ٹچ کیا، "لے چوس چوس۔۔۔ میری رانڈ کے ممے کو! " عاشی نے اپنے ہونٹ کھول کر میرے نپل کو اپنے ہونٹوں کے بیچ دبا لیا۔ سکندر میرے بوبس کو زور زور سے مسلنے لگا۔ کچھ اس طرح گویا وہ ان سے دودھ نکال رہا ہو۔
میری چوت میں بھی پانی رسنے لگا، میں "آ آآ اہہ ہہ اووووہ اففففف اوئی اویئی مااا اووفففف" جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔
سکندر کبھی گانڈ میں کبھی چوت میں لنڈ پیل رہا تھا، میری گانڈ کی دھجیاں اڑ رہی تھیں اور چوت بھوسڑا بن رہی تھی، کمرے میں سکگ اور پھککگ کی "پھچ پھچ" کی آواز گونج رہی تھی۔
وہ درمیان درمیان میں عاشی کے بوبس کو مسل دیتا۔۔۔ اس نے میرے بالوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیے اور اپنی طرف کھینچنے لگا جس کی وجہ سے میرا چہرہ چھت کی طرف اٹھ گیا۔ کوئی پندرہ منٹ تک مجھے اسی طرح چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور ہمیں کھینچ کر بستر پر لے گیا۔ بستر پر گھٹنوں کے بل ہم دونوں کو قریب قریب چوپایا بنا دیا۔ پھر وہ کچھ دیر عاشی کو چودتا کچھ دیر مجھے!
ہم دونوں کی گانڈ پر، پیٹھ پر تھپڑ مارتا، کاٹتا، کتنا درد دے رہا تھا اور چود رہا تھا وہ ہمیں۔ ہم دونوں کتیوں کی طرح اس سے چدوا رہی تھیں، مجھے درد ہو رہا تھا لیکن سکندر سے چدوانے میں اب مزا بھی آ رہا تھا۔
کافی دیر تک اسی طرح ہم دونوں سہیلیوں کی چدائی چلتی رہی۔ میں اور عاشی دونوں ہی جھڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیں چودتا رہا۔
کافی دیر بعد جب اس کے پانی کا نکلنے کا وقت ہوا تو اس نے ہم دونوں کو بستر پر بٹھا کر اپنے اپنے منہ کھول کر اس پانی کو منہ میں لینے کو کہا، ڈھیر سارا پانی میرے اور عاشی کے منہ میں بھر دیا۔ ہم دونوں کے منہ کھلے ہوئے تھے، ان میں سکندر کی منی بھری ہوئی تھی اور منہ سے چھلک کر ہمارے بوبس پر اور بدن پر گر رہی تھی۔
وہ ہمیں اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے کپڑے پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ کئی گھنٹوں تک عاشی میری تیمار داری کرتی رہی، جب تک میں چل سکنے کے قابل ہو گئی۔ پھر ہم کسی طرح گھر لوٹ آئے۔