یہ کہانی بھی میرے ایک دوست شکیل کی ہے، اس کے کہنے پر ہی میں نے لکھ کر بھیجی ہے۔ اسی کے الفاظ میں پیش ہے۔۔۔

آج سے تقریبا 6 سال پہلے کی بات ہے جب میں اپنی آپا ثمینہ سے ملنے کے لئے کراچی  گیا تھا۔ میری آپا کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کا نام شاہد اور بیٹی کا نام مشعل ہے۔
میں صبح والی ٹرین سے چلا تھا اور شام کو قریب 6 بجے اپنی آپا کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا وہ، دن میں گرمی لیکن شام خوشگوار ہو جاتی تھی۔
جب میں وہاں پہنچا تو سب لوگ بہت خوش ہوئے۔ میری آپا کے بچے شاہد اور مشعل مجھے بہت پیار کرتے تھے، خاص طور پر مشعل، وہ کہتی تھی ماموں تو اور بھی ہیں لیکن جتنا آپ ہنسی مذاق کرتے ہو، اور کوئی نہیں کرتا۔
پچھلی بار تین سال پہلے آیا تھا تب وہ میرے ساتھ ہی لگی رہتی تھی اور سونے کی ضد بھی میرے ساتھ ہی کرتی تھی۔
گھر میں دیکھا تو مشعل نہیں دکھائی دی، میں نے آپا سے پوچھا مشعل نہیں دکھائی دے رہی؟
تب آپا نے بتایا وہ ٹیوشن پڑھنے گئی ہے، اور تقریبا ایک گھنٹے میں آ جائے گی۔
میں گیسٹ روم میں چلا گیا اور دن بھر کی تھکان اتارنے لگا، اونگھ بھی گیا تھا۔ تبھی مجھے مشعل کی آواز سنائی دی، وہ واپس آ گئی تھی۔
اس نے پوچھا بڑی چہل قدمی ہے۔۔۔ کیا کوئی بات ہے؟
شاہد نے کہا ماموں جان آئے ہیں۔
مشعل اچھل کر بولی واقعی؟ ماموں کہاں ہیں؟
'کمرے میں ہیں، لیٹے ہیں۔ '
مشعل نے خوشی سے اپنا بیگ پھینکا اور دوڑتی ہوئی میرے کمرے میں گھس آئی اور 'ماموں' کہتے ہوئے میرے گلے لگ گئی اور میرے اوپر گر گئی۔
میں چاہ کر بھی اٹھ بھی نہیں پایا، میں تھوڑا ہچکچا بھی گیا تھا، اس سے پہلے میں کچھ کہتا اس نے سوال داغ دیا: '' ماموں آپ کو اب فرصت مل گئی؟ اتنے دنوں سے کہہ رہے تھے کہ آپ آ رہے ہیں۔۔۔ آ رہے ہیں۔۔۔ اور اب آئے؟
میں بھونچکا رہ گیا تھا۔ تین سال پہلے جس کو میں نے دیکھا تھا وہ بالکل بچی تھی اور اب جو مشعل میرے بدن کے اوپر پڑی تھی وہ تو کافی بڑی ہو گئی تھی۔ مشعل بے حد خوبصورت لگ رہی تھی اور اس کے جسم سے ابھرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے مگر نوکیلے اور سخت پستان میرے سینے سے رگڑ رہے تھے۔ صحیح کہہ رہا ہوں، اس کی چھوٹی چھوٹی چوچیوں کا رگڑنا مجھ میں ایک ہوس کا سیلاب لے آیا، میں نے اس کو پیار سے اس کی پیشانی کو چوما اور کہا ارے ے ے ے، کم سے کم آ تو گیا!
میرا بایاں ہاتھ اس کے پیٹ پر تھا اور نادانستہ طور پر آہستہ آہستہ اسے  سہلانے لگا تھا جس کے باعث اور ایک لہر سی  میرے اندر دوڑ گئی، مجھے خود سے بڑی شرم آئی، مشعل میری بھانجی تھی، پر اس نے میرے اندر پلتی ہوئی ہوس کو کہیں بہت تیزی سے جگا دیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں میں نے اپنے ہوش پر قابو کیا، اپنے آپ کو کوسا اور اس کو اپنے اوپر سے اٹھاتے ہوئے کہا جاؤ، میرے لئے پانی لے آؤ۔
اس نے چہکتے ہوئے کہا ماموں، ابھی لائی۔
اور وہ کمرے کے باہر چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا اس ہلچل کی جو میرے اندر ہونے لگی تھی جب وہ میرے اوپر گری تھی۔ مجھ کو اپنے پر شرم آ رہی تھی کہ مشعل تو اب بھی بچی بن کر مجھ سے مل رہی تھی لیکن میں اس کے ملنے کے طریقے سے، اس کے جسم کو اپنے سے مسلتا  پاکر بالکل ہی بے چین ہو گیا تھا، میرا لنڈ بھی پتلون کے اندر کسمسا کر سخت ہو گیا تھا۔
میں اپنی انہی الجھنوں میں گھرا ہوا باہر نکل آیا اور سب سے مل کر باتیں کرنے لگا۔ بات کرتے کرتے اور کھانا کھاتے رات کے نو بج گئے۔ رات میں بتی اکثر چلی جاتی تھی اس لئے سب نے چارپائیاں باہر برآمدے میں نکال لی تھیں۔
ہم لوگ ان پر لیٹ گئے اور لیٹتے ہی بجلی چلی گئی۔ شاہد اور مشعل کی کو آدھی ادھوری نیند اکھڑ گئی اور کہنے لگی: ماموں، کچھ سناؤ، نہیں تو ایسے نیند نہیں آنے والی!
مجھے بھی نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے میں بھی ان کو کہانیاں قصے سنانے لگا اور وہ لوگ بھی اپنی چارپائی چھوڑ میرے ارد گرد  آ گئے۔
مشعل میرے سر کے پاس  آ کر بیٹھ گئی اور جب میں کہانی سنا رہا تھا، مشعل میرے سر پر ہاتھ پھیرنے اور دبانے لگی۔
وہ سر دبا رہی تھی اور میں بے چین ہونے لگا تھا، مجھے اس دھندلے اندھیرے میں وہ صاف دکھ رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے اس کے ابھرتی ہوئی ٹیبل ٹینس کی گیندوں جتنی چوچیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد میں جب اپنے لنڈ کے کڑے پن سے پریشان ہو گیا تب میں نے اس کے ہاتھ کو ہٹانے کے لئے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اس کوشش میں میرا ہاتھ اس کے ابھاروں سے ٹکرا گیا، ایک کرنٹ سا لگ گیا مجھے، میں پتھر سا اپنا ہاتھ وہیں رکھے رہا اور اس کی چوچی سانس لینے سے ہلتے ہے میرے ہاتھ سے ٹکراتی رہی۔
مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی لیکن میرا من اس جگہ سے ہٹانے کا بھی نہیں کر رہا تھا۔
تبھی مشعل نے دوسرے ہاتھ کو میرے اس ہاتھ پر رکھ دیا اور میرا ہاتھ اس کے ہاتھ اور اس کی چوچی کے درمیان قید ہو گیا اور اب اس کی چھوٹی سے چوچی مکمل طور پر میرے ہاتھ کو دباؤ دینے لگی تھی کیونکہ لائٹ نہیں تھی، اس لئے کسی کو بھی احساس نہیں تھا کہ میرا ہاتھ مشعل کی چوچیوں  سے اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔
اب میرے اندر ہوس عروج پر چڑھ چکی تھی اور اس نے مجھے ماموں سے ایک جوان مرد بنا دیا تھا اور مشعل کی چوچی مجھے صرف ایک لڑکی بلاوا دیتی ہوئی لگ رہی تھی۔
میرے ہاتھ کا اس کے ہاتھ کا دبانا مجھے حوصلہ دے گیا، میں نے اپنے ہاتھ کے پنجوں کو ڈھیل دی اور اس کی چھوٹی چوچیوں کو ہولے ہولے دبانے لگا۔
میں جیسے جیسے اس کی چوچیاں دباتا، مشعل میرا سر اور تیزی سے دبانے لگتی۔
اسی دوران آپا کی آواز آئی اور میں نے گھبرا کر اپنا ہاتھ تیزی سے اس کی چوچیوں سے ہٹا لیا۔
آپا نے کہا: شکیل، آپ دودھ پیو گے؟
میں نے کہا: نہیں، مجھے نہیں چاہیے۔
انہیں کہاں پتہ تھا کہ آج ان کا بھائی ان  کی نئی نئی جون ہوتی بیٹی کا دودھ پینے لے لئے پگلا گیا ہے۔
میں نے ہاتھ جب نیچے کھینچا تھ، تب میرا ہاتھ میری بھانجی کے پیٹ پر آ گیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہاں سے کپڑا تھوڑا ادھڑا ہوا تھا اور میرا ہاتھ مشعل کے ننگے پیٹ سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نے اس ننگی جگہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کے تھوڑے سے ننگے بدن پر ہاتھ رکھ کر مجھے عجیب سی گرمی لگی اور ڈر کے مارے چوہا ہوا لنڈ پھر سے گرما کر سخت ہو گیا۔
میں مشعل کے ننگے پیٹ کو آہستہ سے سہلانے لگا، میں جانتا تھا کہ جو کر رہا ہوں وہ خطرناک ہے لیکن پتہ نہیں ہوس نے میری سب عقل سمجھ چھین لی تھی۔
میری بھانجی مشعل بالکل پتھر بنی بیٹھی تھی، اس کی سانس لمبی اور سسکیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی، بجلی ابھی بھی نہیں آئی تھی اور میں اس کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔
تبھی اندھیرے میں آپا کی آواز آئی: بجلی اب کب آئے گی، پتہ نہیں! دس سے اوپر کا وقت ہو گیا ہے، چلو اب سب سو جاؤ۔ ہم لوگ اندر جا رہے ہیں۔ مشعل چل آ کر سو جا!
میرے تو ہوش اڑ گئے! سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا! صحیح کہہ رہا ہوں میں، بالکل سانس روکے لیٹے رہا، میرا ہاتھ جہاں تھا وہیں رک کے رہ گیا۔
ایک دم سے مشعل پھسپھسائی: ماموں، آپ امی کو کہو نا کہ مشعل سو گئی ہے۔
میں چونک گیا اور فوری طور پر آواز اونچی کرکے بولا: آپا، مشعل سو گئی ہے۔
آپا بولی: یہ تجھے رات بھر نہیں سونے دے گی، ساری رات لاتیں مارتی ہے، تو تھکا ہوا ہو گا۔
میں نے کہا: کوئی بات نہیں، پہلے بھی تو ساتھ میں سوتی تھی، سو گئی ہے تو سونے دو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔
آپا نے آواز لگائی: ٹھیک ہے لیکن دیکھنا اگر تنگ کرے تو اندر بھیج دینا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے آپا، اگر نیند میں خلل پڑے گا تو میں بھیج دوں گا۔
اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔ میں نے تھوڑا سر اٹھا کر دیکھا تو پایا میرا بھانجا پیر پسارے دوسری چارپائی پر سو گیا ہے اور مشعل بھی پرسکون پڑی ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ مشعل جو بغل کی چارپائی پر جا کر لیٹی ہے، اسے اٹھاؤں یا نہیں!
تبھی مشعل خود ہی کروٹ لیتے ہوئے میری چارپائی پر آ گئی اور ساتھ میں ہی لیٹ گئی۔
میں نے ہاتھ سے مشعل کے سر کو سہلایا اور ہلکی آواز میں کہا: مشعل بیٹا، ماموں کی یاد آتی تھی؟
مشعل نے معصومیت سے میری طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر بولی: ماموں، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔
اور وہ اور میرے ساتھ اور زیادہ چپک گئی۔ اس کو اپنے سے بالکل چپٹا پاکر میرا لنڈ بہت خوش ہو گیا اور پاجامے سے باہر آرام سے دکھ رہا تھا۔
میں جانتا تھا کہ میری وہ بھانجی ہے، مجھے بہت پیار کرتی ہے اور یہ سب اس کی نادانی میں ہی ہو رہا ہے لیکن مجھے اس کے جسم کا سکھ مل رہا تھا اور صرف میں اس کا مزا لینا اور دینا چاہتا تھا، جو بھی سکھ بغیر کسی کو پتہ چلے مل سکتا تھا۔
میں نے اس رات کا  مکمل فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے سر سے نیچے کیا اور اس کے چہرے اور گال کو سہلانے لگا۔ میں نے اس کا چہرہ تھوڑا اپنی طرف گھمایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اس کے لبوں پر پھیرنے لگا۔
وہ ویسے ہی نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پڑی رہی۔
میرے یوں اس کے چہرے پر اس طرح انگلی پھیرنے سے مشعل بھی بے چین ہو رہی تھی، اس کی سانسیں بہت بھاری ہو کر چل رہی تھیں۔
اس اندھیرے میں بھی وہ مجھے ایک اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اگرچہ اس کی چوچیاں ابھی زیادہ بڑی نہیں ہوئی تھیں لیکن اس کے بدن کی گرمی مجھ کو پاگل کیے  دے رہی تھی۔
چہرہ سہلاتے سہلاتے میں نے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور اس کے کان میں سرگوشی کی: مشعل تو بہت پیاری ہے۔۔۔ مجھے تجھ پر بہت پیار آ رہا ہے، تجھے برا تو نہیں لگ رہا؟
اس نے ہلکے سے اپنا سر نفی میں ہلا کر مجھے پیش قدمی جاری رکھنے کی  خاموش منظوری دی اور اپنا سر میرے بغل میں مزید گھسا لیا۔
اس کی اس حرکت کے بعد تو میں نے ایک نئے جوش میں آ گیا اور اس کو کس کے بھینچ لیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ کے ایک زوردار بوسہ لیا، پھر اس لبوں کو چوسنے لگا۔
میرے گرم لبوں سے وہ بھی بلبلا گئی تھی، شاید وہ خود میں ہی بے سدھ ہو گئی تھی۔
میں نے اس کو چوم رہا تھا اور ادھر میرے ہاتھ اپنے آپ اس کے سینے پر چلے گئے اور اس کی چھوٹی چوچیوں کو ٹٹولنے لگا۔
اپنی بھانجی کے ٹیبل ٹینس کی بالز جتنے مموں کو دباتے ہوئے میں نے کہا: مشعل بیٹی، تم تو کافی بڑی ہو گئی ہو۔
اس نے سسکتے ہوئے سرگوشی میں ہوئے کہا: ماموں جان، میں تو آپ کے لئے ابھی بھی بچی ہی ہوں۔
اب میں کافی مطمئن ہو گیا تھا اور اس ننھی کلی کو پوری طرح چکھنے کے لئے بے قرار بھی۔
میں نے اپنے ہاتھ سے مشعل کی قمیض کھسکا کر اس کے پیٹ بلکہ سینے سے بھی اوپر کر کے اس کے گلے میں ڈال دی۔ اب اس کا ستواں پیٹ اور چھوٹی چھوٹی گوری گوری چونچیاں ننگی ہو چکی تھیں۔ میں اس کی ننگی چوچیوں کو اپنے ہاتھ سے مسلنے لگا، اس کی ننھی ننھی چوچیوں کو میری انگلیاں چھیڑ رہی تھیں اور وہ مزید تنی جا رہی تھیں۔
میں تھوڑا سا نیچے سرک گیا اور مشعل کی پوری چوچیوں کو اپنے ہونٹوں سے چاٹنے اور انہیں منہ میں بھر کے چوسنے لگا۔
مشعل کے منہ سے سسکتی ہوئی گھٹی گھٹی آواز ہی نکل رہی تھی، اس کو بھی آواز سنائی دے جانے کی اتنی ہی فکر تھی جتنی مجھ کو تھی۔
میں نے اس کی چوچیوں کو چوستے چوستے ہی ایک ہاتھ سے اپنے پاجامے کا ناڑا کھول کر اپنا پاجاما ٹانگوں سے نیچے سرکا دیا۔
میرا لنڈ بھنبھنا کر آزاد ہو گیا، مجھے اندھیرے میں بھی اپنے کھڑے لنڈ کا احساس ہو رہا تھا۔
جھٹ سے میں نے چادر کو ہم دونوں کے اوپر ڈال دیا تاکہ کسی کو کچھ دکھائی نہ دے، پھر میں نے اپنی معصوم کم عمر بھانجی کے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور نیچے لے جا کر اپنے لنڈ پر اس کو رکھ دیا۔
میرے لنڈ کو چھوتے ہی وہ چونک گئی اور ہاتھ ہٹانے لگی لیکن میں نے اس کے ہاتھ میں اپنا لوڑا پکڑوا دیا۔
اس نے گھبرائی آواز میں کہا 'ماموں، اتنا بڑا ہے!
میں نے اس کا ہاتھ اپنے لنڈ پر اور بھینچ دیا۔
اس نے کہا ماموں، بھائی کا تو بہت چھوٹا ہے؟
میں نے اس کے ہاتھ سے اپنے لنڈ کو سہلاتے ہوئے کہا مشعل وہ ابھی چھوٹا ہے اس لیے اس کا لنڈ بھی چھوٹا ہے، جب وہ میری طرح بڑا ہو جائے گا تب اس کا بھی ایسے ہی بڑا ہو گا۔
مشعل اب اطمینان سے میرے لنڈ کو پکڑے آہستہ آہستہ اسے اوپر نیچے کرنے لگی تھی۔ جب وو میرے لنڈ سے آرام سے کھیلنے لگی تب میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے اٹھا لیا اور اس کی ننگی پیٹھ کو سہلانے لگا۔
وہ مجھ سے چپکی ہوئی تھی اور میں بھی اس کے ہر عضو کو سہلانا چاہتا تھا، میں نے پیٹھ سہلاتے ہوئے ہاتھ نیچے کیا اور اس کی  الاسٹک والی شلوار کے اندر ڈال کر اس کے چوتڑوں کو مسلنے لگا، میری انگلی اس کی گانڈ کی دراڑ میں جا کر اسے کریدنے لگی۔
وہ چہک سی گئی اور میں نے انگلی صرف اوپر ہی رکھی تاکہ وہ بد دل نہ جائے۔
میں ایک جانب تو کبھی اس کے ہونٹوں کو چومتا اور دوسری جانب  کبھی اس کی چھوٹی سی چوچی کو منہ میں لے کر چوستا اور ساتھ میں اس کے مدھ مست چوتڑوں کو دباتا۔ مشعل بالکل اپنا ہوش کھوتی جا رہی تھی، اس نے دھیرے سے کہا: ماموں، پتہ نہیں میرے دل میں کچھ ہو رہا ہے۔
"کیا ہو رہا ہے جان؟ "
"پتہ نہیں ماموں جان، اندر سے بڑی بے چینی ہو رہی ہے۔"
میں سمجھ گیا تھا کہ اب میری معصوم بھانجی مشعل بالکل گرم ہو گئی ہے، میں نے کہا مشعل بیٹی، اپنی قمیض اتار دو، ٹھیک لگے گا۔
یہ کہتے ہوئے میں نے خود ہی اس کی قمیض اوپر کھینچ دی اور اس نے اس کو اپنے بدن سے الگ ہونے دیا، میں نے بھی فورا اپنی بنیان اتار دی اور وہ میرے ننگے سینے سے چپک گئی۔
میں نے اپنا سر اس پر جھکا کر اس کی ننگی چوچیوں کو منہ میں لے لیا اور ان کو چوسنے لگا۔
میں نے چوستے ہوئے اس سے کہا مشعل، تمہاری امی نے مجھ سے دودھ پینے کو کہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا کیونکہ مجھے تو آج اپنی مشعل کا دودھ پینا تھا۔
وہ بے چاری جواب میں شرما کر محض "اوئی" کہہ کے رہ گئی۔
میں نے اب اس کی چھوٹی سی نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنا ہاتھ پیچھے سے ہٹا کر آگے اس کی شلوار میں ڈال دیا۔
میرا ہاتھ سیدھا اس کی ٹانگوں کے درمیان نرم سی چوت پر پہنچ گیا، میں نے اس کی چوت اپنی ہتھیلی سے دبا لی، میرا اس کی چوت چھونا تھا کہ اس نے اپنی دونوں رانوں کو سکیڑ لیا اور میرا ہاتھ اس کی چوت پر اور کس کر دب گیا۔
اس کی چوت پر ہلکے ہلکے بال تھے، بالکل ریشم کی طرح۔
میں نے پوچھا" مشعل بیٹا، کیا تم اپنے نیچے کے بال نہیں صاف کرتی ہو؟
اس نے کہا امی نے کہا ہے ابھی نہیں کرنے ہیں۔
میں تو جنت میں پہنچ گیا تھا، اتنی چھوٹی، اتنی نرم چوت جس کے پہلے بال بھی آج تک نہ اترے ہوں، آج سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ میری انگلی اس کی چوت کی پھانکوں سے کھیلنے لگی اور میری انگلی آہستہ سے اس کے دانے (کائٹوریس) پر پہنچ گئی۔
میری اس حرکت سے اس کا بدن سخت ہو گیا اور اپنے پیروں کو رگڑنے لگی۔
میں نے اس کی چوت کو رگڑ رہا تھا اور وہ ہانپنے لگی تھی، اس نے میرا لنڈ بھی چھوڑ دیا تھا۔
میں نے تب کہا بیٹا، اپنا منہ نیچے کی طرف کرو۔
یہ کہہ میں اپنی کہنی کے بل تھوڑا اوپر آ گیا اور اس کا سر اپنے لنڈ کی طرف لے گیا اور کہا: مشعل بیٹا، اس کو منہ میں لے کر چوسو!
مشعل چونک گئی اور اس نے چادر سے سر نکال کر کہا: چھی چھی، ماموں جان، یہ گندا ہے، اس سے پیشاب کرتے ہیں۔
میں نے ہوس سے پاگل ہوئی اپنی بھانجی مشعل کو کہا: بیٹا، تم میرے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتی؟ ٹھیک ہے تم اندر جاؤ۔
وہ ایک دم حیران سی رہ گئی، اسے میرے اس رویے کی امید نہیں تھی، وہ گھبرا کر روہانسی ہو گئی، اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
میں نے اس کو روہانسی دیکھ کر اسے اپنے سے چپکا لیا اور اس کو پیار کرتے ہوئے کہا: چلو مشعل بیٹا، اب منہ میں اپنے ماموں کا لنڈ لے لو، اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔ شاباش بیٹا! میں ایسے ہی لیٹ جاتا ہوں اور تم میرے اوپر الٹی لیٹ جاؤ۔ پہلے میں تمہاری چوت کو چاٹوں گا اور چوسوں گا، تم اپنے آپ سمجھ جاؤ گی۔
میں نے مشعل کو اپنے اوپر کھینچ کر الٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنا منہ اس کی ننھی سی چوت پر رکھ دیا۔ جیسے ہی میری زبان نے اس کی چوت کو چھوا، وہ اپنی کمر کسمسانے لگی۔
میں نے ہاتھ سے اس کو دھکا دے کر اشارہ کیا اور اس نے سہمے سہمے میرے لنڈ پر اپنے کپکپاتے ہونٹ رکھ دیئے۔
میں نے اس کی چوت کو آئس کریم کی طرح چاٹ رہا تھا اور وہ بے حال ہو رہی تھی۔
میں نے اپنا ایک پاؤں اٹھا کر اس کے سر کو نیچے کی طرف دھکا دیا اور اشارہ کیا کہ لنڈ وہ منہ کے اندر لے۔
اس نے اپنا منہ آہستہ سے کھولا اور میرا ٹوپا بمشکل تمام اس کے چھوٹے سے منہ میں چلا گیا۔
میرے ٹوپے کو جیسے ہی اس کے منہ کی گرمی ملی، میں نے اپنی کمر اوپر اٹھا کر اور زیادہ لنڈ مشعل کے منہ کے اندر تک ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس بے چاری کا چھوٹا سا منہ تھا اور وہ اس سے زیادہ نہیں لے پا رہی تھی۔
میں نے بھی زیادہ نہ ڈالنے کا من بنایا اور ویسے ہی اپنا لنڈ اس کے منہ میں اندر باہر کرنے لگا۔
مشعل کی چوت میں میری زبان اندر تک گھوم رہی تھی اور ادھر میری زبان اس کی چوت کو چود رہی تھی اور ادھر میرا پھنپھناتا لنڈ اس معصوم بچی کے منہ کو چود رہا تھا۔
میں جوش میں اس کی چوت میں اپنی زبان کافی اندر تک اس کی جھلی تک لے جا رہا تھا، اب مشعل اپنے آپ اپنی کمر کو اوپر نیچے کرنے لگی تھی۔
تبھی اس نے میرے لنڈ سے اپنا منہ ہٹا لیا اور کہا ماموں: اب نہیں کر پاؤں گی، بدن تپ رہا ہے، عجیب سا ہو رہا ہے۔
میں نے مشعل کو اوپر کھینچ لیا اور کہا: بیٹا، طبیعت تو میری بھی بہت خراب ہو گئی ہے، لیکن اب میرا لنڈ تمہاری چوت میں جائے بغیر تو ہم دونوں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی۔ کیا تم میرا لنڈ برداشت کر لو گی؟
یہ سن کر مشعل نے خوفزدہ لہجے میں کانپتے ہوئے کہا: ماموں جان، یہ مت کیجیے۔۔۔ آپ کا بڑا ہے، امی اتنی بڑی ہیں لیکن جب ابو ان کو کرتے ہیں، تب امی بھی چلاتی ہیں۔
میں نے اس کو اپنے سے اور چپکاتے ہوئے اس کی چوت جو گیلی تھی میں انگلی ڈالتے ہوئے دھیرے سے کہا بیٹی، امی تمہاری درد سے نہیں، مزے میں چلاتی ہیں، میں آہستہ سے ڈالوں گا، پرامس۔۔۔ تھوڑا سا برداشت کر لینا، اس کے بعد تو امی کی طرح تم بھی مزے سے چلّاؤ گی۔
میں مشعل سے یہ سب کہتے ہوئے ساتھ ساتھ اس کی چوت میں انگلی گھسیڑ کر اس کو انگلی سے ہی چود بھی رہا تھا تا کہ میری معصوم بھانجی کی چوت تھوڑی ڈھیلی ہو جائے اور اسے کم درد ہو۔
اس نے کہا: ماموں جان، آپ کو میری قسم، جب میں کہوں گی تب نکال دینا، اور پورا اندر مت ڈالنا۔۔۔ پلیز
میں نے اس کی چمی لی اور کہا: شاباش مشعل بیٹا، بس شروع میں صرف تھوڑی سی ہمت کر لینا۔
اب میں نے مشعل  کو بستر پر لٹا دیا اور اس کی کمر اٹھا کر تکیہ اس کے چوتڑوں کے نیچے لگا دیا تاکہ اس کی چوت ابھر کر اوپر آ جائے۔
میں نے اس کی ٹانگوں کو پھیلایا اور خود  اس پر لیٹ گیا اور اس کے کان میں کہا: مشعل بیٹا، دوپٹہ منہ میں ڈال لو، پہلی بار جب لنڈ جائے گا تو آواز نکل سکتی ہے۔
یہ کہتے ہوئے میں نے خود ہی اس کا دوپٹہ اس کے منہ میں ڈال دیا کیونکہ مشعل کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ایک طرف اس کو اتنا مزہ مل چکا تھا کہ وہ اور بھی آگے جانے کو تیار تھی اور دوسری طرف وہ گھبرا بھی رہی تھی، اس لیے کہیں وہ بدل نہ جائے اور چلّا نہ پڑے، میں نے اس کے منہ میں خود ہی اس کا دوپٹا ڈال دیا۔
پھر میں نے ڈھیر سارا تھوک نکال کر اپنے لنڈ پر لگا دیا، کوئی تیل یا کریم تو وہاں اس وقت ملنی نہیں تھی اور میں اس کو بغیر چودے آج کی رات نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
پھر اور تھوک نکال کر میں نے اس کی چوت کے اندر بھی اچھی طرح لگا دیا تاکہ چوت سبھی چکنی ہو جائے۔
میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا مشعل کی چوت کو پھیلا کر اس کے سوراخ کے منہ پر رکھ دیا اور اس معصوم کو اپنی  بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا تا کہ وہ درد کے مارے تڑپتے ہوئے مجھ سے چھوٹ کر بھاگ نہ سکے۔ اب میں اس کو چومنے لگا اور اس دوران میں نے ایک ہلکا سا دھکا مارا اور میرا ٹوپا مشعل کی چھوٹی سی کنواری چوت میں گھس گیا۔۔۔ وہ بے چاری درد کے مارے تڑپنے لگی۔
میں پریشان ہو گیا، اس کے منہ سے آواز نکلنے لگی اور وہ اپنا سر ادھر ادھر پٹکنے لگی، مجھے کچھ نہیں سوجھا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا اور کس کے دھکا مار کر لنڈ اس کی چوت میں زبردستی ڈال دیا۔
وہ بن پانی کے مچھلی طرح تڑپنے لگی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور مجھ سے اشارے سے ہٹنے کو کہنے لگی۔
میں نے 3/4 دھکے اور مار کر اپنا آدھا لنڈ اس کی چوت میں ڈال دیا اور پھر رک گیا۔
میں نے اس کے کان میں کہا: مشعل بیٹا، بس ہو گیا۔۔۔ اب اور اندر نہیں ڈالوں گا، چلّانا مت۔۔۔ میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں۔۔۔ نہیں تو دونوں پکڑے جائیں گے۔
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے سر کو سہلانے لگا اور جب تھوڑی وہ پرسکون لگی، تب ہاتھ ہٹا لیا، اس نے دوپٹہ منہ سے ہٹا دیا اور روتے ہوئے کہا ماموں، اب نکال دو، اندر کٹا جا رہا ہے، نہیں برداشت ہو رہا!
میں نے کہا: مشعل ششش۔۔۔ چپ ہو جاؤ بیٹا، جو ہونا تھا ہو گیا اب آرام آ  جائے گا، اب اتنا درد نہیں ہو گا، بلکہ مزا آئے گا۔
میں اس کو چومنے لگا اور اس کی چوچیوں کو بھی چوسنے لگا اور وہ تھوڑا پرسکون ہو گئی، تب میں آہستہ سے اس کی چوت میں اپنا لنڈ اندر باہر کرنے لگا۔
میں نے پورا لنڈ اندر نہیں ڈالا، صرف آدھا ہی ڈال کر باہر کر لیتا تھا۔ اب وو میرے آدھے لنڈ کو لے رہی تھی ہر ہلکے دھکے میں بھی اس کے چہرے پر درد کی لکیر آ جاتی تھی لیکن اس کو لنڈ کا احساس اپنی چوت کے اندر اچھا بھی لگنے لگا تھا۔
تھوڑی طرح اس طرح چودنے کے بعد میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت سے نکال لیا اور اس کو گودی میں لے لیا۔
گودی میں بیٹھ کر وہ چپ ہو گئی، میرا لنڈ اس کے ننگے چوتڑوں سے ٹکرا رہا تھا اور میں اس کی چوچی دبا رہا تھا اور ساتھ میں اس کی چوت کو بھی سہلا رہا تھا۔
اب میں صرف اپنی انگلی سے ہی اس کو دھیرے دھیرے چود رہا تھا اور وہ انگلی سے چدوانے کا مزہ لینے لگی تھی۔ تبھی اس کا بدن اکڑ گیا اور وہ سسکنے لگی، مجھے سمجھ میں آ گیا کہ مشعل کو اورگیزم ہو گیا ہے اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔
میں اس کو چومنے لگا اور وہ مجھ سے چپک گئی۔
میں اس کے ننگے بدن کو سہلانے لگا اور اس کو بستر پر پھر سے لٹا دیا، اس مرتبہ مشعل خاموشی سے لیٹ گئی اور میں نے اس کی رانوں کو پھیلا کر اپنا لنڈ اس کی چوت پر رکھ دیا۔
وہ بے چاری تو سمجھی تھی کہ بس اب چدائی کا دور ختم ہو چکا ہے لیکن میرا ٹوپا اپنی چوت پر محسوس کرتے ہی وہ مچلنے لگی اور بولی: ماموں جان، اب ور مت کرنا پلیز۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے۔۔۔ پلیز۔۔۔ بس اور نہیں نا۔۔۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایک جھٹکے میں آدھا لنڈ اس کی چوت میں گھسیڑ دیا۔ اس کا بدن میرا لنڈ پاکر تن گیا اور میں اسی حالت میں ہی اس کی بہت ہی تنگ چھوٹی سی چوت میں اپنا لنڈ پیلنے لگا۔ اب مشعل آہستہ آہستہ میرا لنڈ لینے لگی اور میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لنڈ اس کے اندر جاتا اور نکلتا تو وہ بھی ساتھ ساتھ اپنی کمر ہلانے لگی تھی اور اس کو چدائی کا اصلی مزا آنے لگا تھا۔
دو تین منٹ کے بعد میں خود کو روک نہیں پایا اور کس کے دھکے مارنے لگا اور پورا لنڈ اس کی چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ میرے جھٹکوں سے اس کے منہ سے اف آہ آآآآہ آآآآآہ اووووئی اففففف کی آوازیں آنے لگی تھی۔
میں بھی اب اپنے کو روک نہیں پا رہا تھا اور جھڑنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
میں نے مشعل کو جکڑ لیا اور کس کے دھکے مارنے لگا، وہ "آہ آہ ماموں جان۔۔۔ بس بس۔۔۔ اب بس کر دیں پلیز" کر کے میری منتیں کرنے لگی۔
میں بھی جنونی ہو گیا تھا، بھول گیا تھا کہ سب لوگ کچھ ہی فاصلے پر کمرے میں سو رہے ہیں۔
اور جیسے ہی مجھے لگا کہ اب نہیں رک پائے گا، میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت سے نکال دیا، میں اس کے پیٹ پر ہی جھڑ گیا اور ہانپتے ہوئے اپنی بھانجی مشعل کے اوپر گر گیا۔
تھوڑی دیر بعد میں ہوش آیا اور احساس ہوا کہ ہوس کی آگ میں میں نے کیا کر دیا اور کتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔
میں نے اپنے سرہانے رکھے رومال سے لنڈ پوچھا اور جب مشعل کو پوچھنے گیا تب ہوش اڑ گئے اس کی کنواری چوت پھٹ چکی تھی اور خون نکلا ہواتھا۔
تکیے کے لحاف پر بھی خون کے نشان تھے۔
میں نے اس کو اٹھایا وہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھی اور کپڑے پہنے۔
میں نے اس کو اشارے سے کہا کہ وہ باتھ روم جائے، میں بعد میں جاؤں گا۔
وہ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو میں گیا اور ساتھ میں تکیے کا لحاف بھی لے گیا۔ خون تازہ تھا اس لئے صابن سے دھو کر باہر لٹکا دیا۔
واپس چارپائی پر آیا تو دیکھا مشعل نہیں ہے وہ اپنی چادر لے کر اندر سونے چلی گئی تھی۔
میں اپنے بستر پر جو ہوا تھا اس کو سوچتے ہوئے سو گیا۔
صبح جب اٹھا تو احساس ہو گیا کہ میں نے واقعی کیا کل رات وہ سب کیا، عجیب خوف اندر گھر کر گیا۔
اس دن مشعل طبیعت کی خرابی کا کہہ کر اسکول نہیں گئی۔۔۔ جاتی بھی کیسے! بے چاری کا معصوم بدن اپنی زندگی کی پہلی چدائی کروا کر درد کر رہا ہو گا۔ شاہد کے اسکول جانے کے بعد ثمینہ آپا بھی کسی کام سے چلی گئیں۔ تب مشعل اٹھی اور مجھے دیکھ کر شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ میں بے حد خوف زدہ تھا لیکن مشعل بہت پیار سے ماموں جان، آئی لو یو کہہ کے مجھ سے چپک گئی۔ میرا خوف بھی ختم ہو گیا اور میں نے اسے چومنا شروع کیا۔ آپا اور شاہد کے گھرو اپس آنےس ے پہلے میں اپنی بھانجی کو دو مرتبہ مزید چود چکا تھا۔
اس کے بعد میں ہفتہ بھر آپا کے ہاں رکا اور روزانہ رات کو مشعل میرے ساتھ ہی سوتی اور ہم بلا ناغہ چدائی کرتے۔ اس دوران میں نے اس کی گانڈ بھی ماری جو اس کے لیے پہلی مرتبہ چوت مروانے سے بھی کہیں زیادہ دردناک تجربہ تھا لیکن وہ معصوم میری محبت میں یہ درد بھی سہہ گئی۔ 
اس کے بعد میرا ثمینہ آپا کے ہاں جانا کافی بڑھ گیا اور ہر دو ماہ بعد میں ان کے ہاں پہنچ جاتا اور دس سے پندرہ دن قیام کرتا اور واپسی میں اکثر ضد کر کے مشعل میرے ساتھ آ جاتی اور ہفتہ بھر ہمارے ہاں رہتی۔ اس کے علاوہ اس کی گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں بھی ہمارے ہاں ہی گزرتیں۔ ان سالوں میں اس نے مجھ سے سینکڑوں مرتبہ ہر پوز میں چدوایا اور نہ صرف اپنی کئی سہیلیوں کی چوت اور گانڈ کی سیل بھی مجھ سے کھلوائی بلکہ میں نے بھی اسے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ مل کر کئی مرتبہ چودا۔ 
پھر اس کی شادی ہو گئی لیکن اس کی شادی کے بعد اب بھی جب کبھی وہ ہمارے ہاں آتی ہے یا ہمیں کہیں اور موقع ملتا ہے وہ مجھ سے چدوا لیتی ہے۔ اس کے دو بچے ہو چکے ہیں جن کا باپ میں ہوں یا اس کا شوہر کوئی نہیں جانتا۔