پیر، 25 اگست، 2014

میری محبت کی قیمت - قسط 4

میں اپنے گھر تو شام کو پہنچی۔ وہاں سے براہ راست عاشی کے گھر گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کسی کو پتہ نہیں چلا۔
عاشی نے اپنے وعدے کے مطابق میرے رشتے کی بات اپنے ممی پاپا سے چلائی اور وہ مان بھی گئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا رشتہ بھی سکندر کے ساتھ پکا ہو گیا۔ چھ ماہ میں ہی ہم دونوں کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔
ان چھ ماہ کے دوران سکندر نے مجھے کئی بار مختلف جگہ پر بلا کر چودا۔ اس کے پاس میری تصویریں تھی، وہ تو ایک وجہ تھی ہی، لیکن مجھے بھی سکندر کے لنڈ کا چسکا لگ چکا تھا لیکن میں بتا نہیں پا رہی تھی کیونکہ وہ عاشی کا ہونے والا شوہر تھا۔
سکندر نے ایک دن ہم دونوں کو وہ تصویریں اور موویز دکھائیں۔ میں تو شرم سے پانی پانی ہو گئی پر عاشی نے خوب چٹخارے لیے۔ میں اب پوری طرح سکندر کے چنگل میں تھی۔ اس نے مجھے اکیلے میں دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ اس کی بات اگر میں نے نہیں مانی تو وہ یہ فلم دانش کو دکھا دے گا۔
خیر میں نے وعدہ کر لیا۔ شادی سے چند دن پہلے سکندر کے کسی رشتہ دار کی موت ہو گئی اس لیے اس کی اور عاشی کی شادی کچھ دنوں کے لیے ٹل گئی۔ میری اور دانش کی شادی مقررہ دن کو ہی ہونی تھی۔
ہمارے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی۔ عاشی سکندر کو بھی ہمارے گھر لے آتی تھی۔ دونوں کی منگنی ہو چکی تھی اس لیے کسی کو کسی بات پر اعتراض نہیں تھا۔
مایوں کی رسم شروع ہونی تھی، میرے گھر والے اس میں مصروف تھے۔ میرے کمرے میں آ کر عاشی مجھے لے کر باتھ روم میں گھسی: اپنے یہ کپڑے اتار کر یہ سوتی ساڑھی لپیٹ لے!
اس نے کہا اور میں نے اپنے کپڑے اتارنے لگی۔
تبھی دروازے پر ٹھک ٹھک ہوئی۔
"کون؟"
پوچھنے پر پھسپھساتی ہوئی سکندر کی آواز آئی۔
عاشی نے ہلکے سے دروازہ کھولا اور وہ جھٹ سے باتھ روم میں گھس گیا۔
"مرواؤ گے آپ! اس طرح بھری محفل میں کوئی دیکھ لے گا تو بڑی مشکل ہو جائے گی! جم کر جوتے پڑیں گے! " عاشی نے کہا۔
مگر وہ اتنی جلدی مان جانے والا انسان تھا ہی نہیں۔ ویسے بھی یہ باتھ روم ہمارے بیڈروم سے اٹیچڈ تھا۔ اس لیے کسی کو یہاں آنے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا۔ سکندر پہلے ہی سارا انتظام کرکے آیا تھا، دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔
"آج تو صائمہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی ہے! " سکندر نے کہا: آج تو میں اسے تیار کروں گا! تو ہٹ!
عاشی میرے پاس سے ہٹ گئی۔ سکندر اس جگہ آ گیا۔ اس نے میرے کرتے کو بلند کرنا شروع کیا۔ میں نے بھی ہاتھ بلند کر دیئے۔ اب تک میں اتنی بار سکندر سے چدوا چکی تھی کہ اب اس کے سامنے کوئی شرم باقی نہیں بچی تھی۔ صرف کسی کے آ جانے کا ڈر ستا رہا تھا۔
اس نے میرے کرتے کو بدن سے الگ کر دیا، پھر مجھے پیچھے گھما کر میرے برا کے ہک کھول دیے، پھر دونوں سٹرپ کو پکڑ کر کندھے سے نیچے اتار دیے۔ میری برا کھل کر اس کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس نے اس کو میرے بدن سے الگ کر کے اپنے ہونٹوں سے چوما اور پھر عاشی کو پکڑا دیا۔
پھر اس نے میری شلوار کے ناڑے کو پکڑ کر اسے ڈھیلا کر دیا۔ شلوار ٹانگوں سے سرسراتی ہوئی نیچے میرے قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔
پھر اس نے میری پینٹی کے الاسٹک کو دو انگلیوں سے کھینچ کر کھلا کیا۔ پھر اپنے ہاتھ کو دھیرے دھیرے نیچے لے گیا۔ چھوٹی سی پینٹی بدن سے کینچلی کی طرح اتر گئی۔ میں اس کے سامنے اب بالکل ننگی ہو گئی تھی۔ اس نے کھینچ کر مجھے شاور کے نیچے کر دیا۔ پھر میرے بدن کو مسل مسل کر نہلانے لگا۔
عاشی نے روکنا چاہا کہ ابھی یہ سب کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن اس نے کہا: تم دوبارہ نہلا دینا!
مجھے نہلانے کے بعد اس نے میرے سارے بدن کو پونچھ پونچھ کر خشک کیا۔
"لو، صائمہ کو یہ ساڑی پہنانی ہے۔ دیر ہو رہی ہے اسے مایوں لگوانی ہے۔" عاشی نے ایک ساڑی سکندر کی طرف بڑھائی۔
"پہلے میں اسے اپنے رس سے نہلا دوں، پھر اسے کپڑے پہنانا۔" کہہ کر سکندر نے مجھے باتھروم میں ہی جھکنے پر مجبور کر دیا۔ پہلے سکندر کی ایسی بدتمیزیوں سے مجھے سخت نفرت تھی مگر آج کل جب بھی وہ مجھے ایسے کرتا تو پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا تھا، میں چپ چاپ اس کے کہنے کے مطابق کام کرنے لگتی تھی اور چدائی کے مزے لیتی تھی گویا اس نے مجھے کسی جادو  میں باندھ رکھا ہو۔
اس نے پیچھے سے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیا اور میری چھاتیوں کو مسلتے ہوئے دھکے مارنے لگا۔
"جلدی چودو! لوگ باہر تلاش کرتے ہوئے یہاں آتے ہوں گے! " عاشی نے سکندر سے کہا۔
وہ مجھے دھکے کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی، "میری سہیلی کو کیا کوئی رنڈی سمجھ رکھا ہے تو جب موڈ آئے ٹانگیں پھیلا کر ٹھوکنے لگتا ہے؟"
سکندر کافی دیر تک مجھے اس طرح چودتا رہا۔ پھر میری ایک ٹانگ کو اوپر کر دیا۔ اس وقت میں دیوار کا سہارا لیے ہوئے کھڑی تھی، میرا ایک پاؤں زمین پر تھا دوسرے کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ میری پھیلی ہوئی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر پھر چودنے لگا۔ مگر اس پوزشن میں وو زیادہ دیر نہیں چود سکا اور اس نے میری ٹانگ کو چھوڑ دیا۔ اب اس نے مجھے عاشی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور پھر چودنے لگا۔۔۔
میں نے اس کی اس حرکت سے تڑپتے اور مزے لیتے ہوئے اپنے پانی کی بارش کر دی۔ وہ بھی اب چھوٹنے ہی والا تھا۔ اس نے اچانک اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور مجھے گھٹنوں کے بل جھکا کر میرے بدن کو اپنی منی سے بھگو دیا، چہرے پر، چھاتی پر، پیٹ، ٹانگوں اور یہاں تک کہ بالوں میں بھی منی  کے قطرے لگے ہوئے تھے۔
کچھ منی اس نے میری برا کے کپس میں ڈال دی۔ اس نے پھر مسل کر میرے بدن پر اپنی منی کا لیپ چڑھا دیا۔ میرا پورا بدن چپچپا ہو رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے اٹھا کر اپنی منی سے بھیگی ہوئی برا مجھے پہنا دی۔ اس نے پھر مجھے باقی سارے کپڑے پہنا دیے۔
میں باتھ روم سے باہر آ گئی، عاشی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور ہم باہر نکل گئے۔ سکندر دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا ہمارے جانے کے کچھ دیر بعد جب وہاں کوئی نہیں بچا تو چپ چاپ نکل کر چلا گیا۔ اس کی ان حرکتوں سے تو میرا دل کافی دیر تک زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عاشی کے ماتھے پر بھی پسینہ بہہ رہا تھا۔
مایوں کی رسم اچھی طرح پوری ہو گئی۔ پھر کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

شادی کے دن میں بیوٹی پارلر سے میک اپ کروا کر واپس آئی تھی شام کو 6 بجے۔
بیوٹیشین نے بہت محنت سے سنوارا تھا مجھے۔ میں ویسے بھی بہت خوبصورت ہوں اس لیے تھوڑی محنت سے ہی بالکل اپسرا کی طرح لگنے لگی، سنہری لہنگے چولی میں بالکل راجکماری سی لگ رہی تھی، عاشی ہر وقت ساتھ ہی تھی، کافی دیر سے سکندر کہیں نہیں دکھا تھا۔
شادی کے لیے ایک میرج ہال بک کیا گیا تھا۔ اس کی دوسری منزل پر میرے ٹھہرنے کا مقام تھا۔ میں اپنی سہیلیوں سے گھری ہوئی بیٹھی تھی۔ شام کو تقریبا نو بجے بینڈ والوں کا شور سن کر پتہ چلا کہ بارات آ رہی ہے۔
میری سہیلیاں دوڑ کر کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ وہاں اندھیرا  ہونے سے کسی کی نظر اوپر کھڑکی پر نہیں پڑتی تھی۔ اب میری سہیلیاں وہاں سے اے کے ایک کر کے کھسک گئیں۔ کچھ کو تو بارات پر پھولوں کی  بارش کرنی تھی اور کچھ دولہے اور بارات کو دیکھنے کے لیے چلی گئیں۔
میں کچھ دیر کے لیے بالکل اکیلی پڑ گئی۔ ایک دروازہ پاس کے کمرے میں کھلتا تھا۔ اچانک وہ دروازہ کھلا اور سکندر اندر آیا۔
میں اس وقت اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گئی، دماغ میں چل رہا تھا کہ آج بھی مجھے چود کر رخصت کرے گا کیا۔
اس نے آ کر باہر کے دروازے کو بند کر دیا۔
"سکندر، اب کوئی غلط حرکت مت کرنا، کسی کو پتہ چل گیا تو میری زندگی برباد ہو جائے گی، سب تھوکیں گے مجھ پر، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاؤں گی۔" میں نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے وہ چپ رہا۔
"دیکھو شادی کے بعد جو چاہے کر لینا، جہاں چاہے بلا لینا، مگر آج نہیں! آج مجھے چھوڑ دو! "
"ارے، آج تو اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ تم سے ملے بغیر نہیں رہ پایا۔ بس ایک بار پیار کر لینے دے! " وہ آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں اس سے اپنے کو الگ نہیں کر پا رہی تھی، ڈر تھا سارا میک اپ خراب نہ ہو جائے۔
میں نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس نے میرے چھاتی پر ہلکے سے ہاتھ پھیرا۔ شاید اسے بھی میک اپ بگڑ جانے کا ڈر تھا۔
"آج تجھے اس وقت ایک بار پیار کرنا چاہتا ہوں۔" کہہ کر اس نے میرے لہنگے کو پکڑا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس سے منع کرنے لگی۔ مگر اس نے سنا نہیں اور میرے لہنگے کو کمر تک اٹھا دیا۔ پھر اس نے میری گلابی شفاف پینٹی کو کھینچ کر نکال دیا، اسے اپنی پینٹ کی جیب میں بھر لیا۔
پھر مجھے کھلی ہوئی کھڑکی پر جھکا کر میرے پیچھے سے چپک گیا۔ اس نے اپنے پینٹ کی زپ کھولی اور اپنے کھڑے لنڈ کو میری چوت میں پیل دیا۔
میں کھڑکی کی چوکھٹ کو پکڑ کر جھکی ہوئی تھی اور وہ پیچھے سے مجھے ٹھوک رہا تھا۔ سامنے بارات آ رہی تھی اس کے استقبال میں بھیڑ امڈتی پڑی تھی اور میں دلہن کسی اور سے چدوا رہی تھی۔ لگتا تھا سب باراتیوں کے سامنے چدوا رہی ہوں۔
وہاں اندھیرا اور سامنے ایک درخت ہونے کی وجہ سے کسی کی نظر نہیں پڑ رہی تھی ورنہ غضب ہو جاتا۔ سامنے ناچ گانا چل رہا تھا۔ سب اسے دیکھنے میں مصروف تھے اور ہم چدائی کر رہے تھے۔ کچھ دیر میں اس نے ڈھیر ساری منی میری چوت میں ڈال دیا۔ میرا بھی اس کے ساتھ ہی پانی نکل گیا۔
بارات اندر آ چکی تھی۔۔۔
تبھی کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سکندر جھپٹ کر بغل والے کمرے کی طرف لپکا۔
میں نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا، "میری پینٹی تو دیتے جاؤ! " میں نے کہا۔
"نہیں یہ میرے پاس رہے گی۔" کہہ کر وہ بھاگ گیا۔
دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ میری دو تین سہیلیاں اندر آئیں۔۔۔
"کیا ہوا؟" انہوں نے پوچھا۔
"کچھ نہیں! آنکھ لگ گئی تھی تھکاوٹ کی وجہ سے۔" میں نے بات کو ٹال دیا مگر عاشی سمجھ گئی کہ میں سکندر سے چدی ہوں۔ میں نے اسے اپنے کو گھورتے پایا۔
میں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
"چلو چلو، بارات آ گئی ہے۔ آنٹی  انکل بلا رہے ہیں! " سب نے مجھے اٹھایا اور میرے ہاتھوں میں مالا تھما دی۔ میں ان کے ساتھ مالا تھامے لوگوں کے درمیان سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی۔ سکندر کی منی بہتی ہوئی میرے گھٹنوں تک آ رہی تھی۔
پینٹی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں رانیں چپچپی ہو رہی تھیں۔
اسی حالت میں میری شادی ہوئی۔ شادی کے فنکشن کے دوران جب بھی سکندر نظر آیا اس کے ہاتھوں کے درمیان میری گلابی پینٹی جھانکتی ہوئی ملی۔
ایک مرد سے میری شادی ہو رہی تھی اور دوسرے کی منی میری چوت سے ٹپک رہی تھی۔ کیسی عجیب حالت تھی۔۔۔