پیر، 25 اگست، 2014

میری محبت کی قیمت - قسط 2

ہم آٹو لے کر ہوٹل پارک ویو پہنچے، وہاں ہمیں سوٹ نمبر 205 کے سامنے پہنچا دیا گیا۔ عاشی نے ڈور بیل پر انگلی رکھی۔ بیل کی آواز ہوئی۔ کچھ دیر بعد دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ اس میں سے سکندر کا چہرہ نظر آیا۔
"گڈ گرل! " اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
مجھے لگا جیسے میں اس کے سامنے ننگی ہی کھڑی ہوں۔
"آؤ اندر آ جاؤ۔" اس نے دروازے کو تھوڑا سا کھول دیا۔
میں اندر آ گئی۔ میرے اندر آتے ہی دروازے کو بند کرنے لگا۔
عاشی نے آواز لگائی - سکندر، مجھے بھی تو آنے دو۔۔۔
"تیرا کیا کام ہے یہاں؟ تجھے پہلے ہی منع کیا تھا نا۔۔۔ چل بھاگ  جا یہاں سے! کل صبح آ کر اپنی اس رنڈی کو لے جانا! " کہہ کر بھک سے سکندر نے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے چاروں طرف دیکھا۔ اندر اندھیرا ہو رہا تھا۔ ایک آرائشی سپاٹ لائٹ کمرے کے بیچوں بیچ گول روشنی کا دائرہ بنا رہی تھی۔ کمرہ مکمل نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس نے میری بازو پکڑی اور کھنچتا ہوا اس روشنی کے دائرے میں لے گیا۔
"بڑی شیرنی بنتی ہے؟ آج تیرے دانت ایسے توڑوں گا کہ تیری قیمت دو ٹکے کی بھی نہیں رہ جائے گی۔"
میں اپنے آپ کو سمیٹے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔
اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے موٹے موٹے ہونٹ رکھ دیے۔ اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے میرے منہ میں داخل ہو گئی۔ اس کے منہ سے شراب کی تیز بدبو آ رہی تھی۔ شاید میرے آنے سے پہلے پی رہا ہو گا۔ وہ میرے منہ کا کوئی کونا اپنی زبان پھیرئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ ایک ہاتھ سے میرے بدن کو اپنے سینے پر بھینچے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ کو میری پیٹھ پر پھیر رہا تھا۔
اچانک میرے چوتڑوں کو پکڑ کر اس نے زور سے دبا دیا اور اپنے سے چپکا لیا۔ اب میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپر چپکا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میں اس کے چہرے کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے مجھے پل بھر کے لیے چھوڑا اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر کر دیا۔ میں سہمی سی ہاتھ اوپر کر کے کھڑی ہو گئی۔ اس نے قمیض کو میرے بدن سے الگ کر دیا، پھر میری برا میں ڈھکی دونوں چھاتیوں کو پکڑ کر زور سے مسل دیا۔
اور اتنی زور سے مسلا کہ میرے منہ سے "آآآآآآآہہہہ" نکل گئی۔ اس نے میری دونوں چوچیوں کے بیچ سے میری برا کو پکڑ کر زور سے ایک جھٹکا دیا۔ میری برا پھٹ کر دو حصوں میں الگ ہو گئی۔ اب میرے بریسٹس اس کی آنکھوں کے سامنے ننگے ہو گئے۔ اس نے میرے بدن سے میری پھٹی ہوئی برا کو اتار کر پھینک دیا اور دوبارہ میرے نپل کو پکڑ کر زور زور سے مسلنے لگا۔
"اووووہ اووفففف پلیز پلیز آہستہ کرو! '' میں نے درد سے تڑپتے ہوئے کہا۔
"کیوں بھول گئی اپنے تھپڑ کو حرامزادی؟ آج بھی میں بھولا نہیں ہوں وہ بے عزتی۔ آج تیری چوت کو ایسے پھاڑوں گا کہ تو کبھی اپنا سر اٹھا کر بات نہیں کر پائے گی۔ ساری زندگی میری رنڈی بن کر رہے گی!" یہ کہہ کر وہ میری ایک چھاتی کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا، چوس کیا کھا ہی رہا تھا میری ممے کو۔
اس نے میری شلوار کے ناڑے کو ایک جھٹکے میں توڑ دیا، شلوار سرسراتی ہوئی میرے قدموں پر ڈھیر ہو گئی۔
"میں ایسا ہی ہوں! جو بھی میرے سامنے کھلنے میں دیر لگاتی ہے، اسے میں توڑ دیتا ہوں۔" وہ بولے جا رہا تھا - سالی مادرچود! چانٹا مارا تھا نا تو نے مجھے! کتیا اب دیکھ سالی رنڈی!
اور پھر میرے ممے کو کچل کر میری چوت کو بھی مسلنے لگا، وہ نوچ رہا تھا مجھے! پھر اس نے میری ایک بازو پکڑ کر مروڑ دی۔
میں درد کے مارے پیچھے گھوم گئی۔
اس نے زمین سے میرا دوپٹہ اٹھا کر میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کرکے سختی سے باندھ دیا، لائٹ کا سوئچ آن کر دیا۔
پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔ سامنے صوفے پر ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔
"اسے تو تم پہچانتی ہو گی؟ میرا دوست سنی!"
سنی اٹھ کر پاس آ گیا، اس نے میرے بدن کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ میں نے جھک کر بچنے کی کوشش کی، سنی نے میرے بالوں کو پکڑ کر میرے چہرے کو اپنی طرف کھینچا، میرے چہرے کو اپنے پاس لا کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
سکندر میرے جسم کے نیچے کے حصوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ میری ران پر کبھی چٹکی کاٹتا تو کبھی چوت کے اوپر ہاتھ پھیرتا۔ پھر اس نے میری پینٹی کو بھی میرے جسم سے الگ کر دیا اور ایک ہی جھٹکے سے اپنی دو موٹی موٹی انگلیاں میری چوت میں ڈال دیں اور ایک انگلی میری گانڈ میں گھسیڑ دی۔ زندگی میں پہلی بار چوت اور گانڈ پر کسی بیرونی چیز کے دخول نے مجھے سسک اٹھنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ پہلی بار میرے بدن سے کوئی کھیل رہا تھا اس لیے میرا جسم گرم ہونے لگا، میرے دماغ کا کہنا اب میرا جسم نہیں مان رہا تھا۔" اب تجھے دکھاتے ہیں کہ لوڑا کسے کہتے ہیں۔" یہ کہہ کر وہ دونوں اپنے اپنے جسم پر سے کپڑے اتارنے لگے۔ دونوں بالکل ننگے ہو گئے۔ ان دونوں کے لوڑے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میری چوت کا چھید تو بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک انگلی ڈالنے سے بھی درد ہوتا تھا مگر ان دونوں کے لوڑوں کے گھیر تو میری مٹھی سے بھی موٹے تھے، گھبراہٹ سے میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
"پلیز مجھے جانے دو! " میں نے روتے ہوئے کہا۔
"ہم نے تو تجھے نہیں پکڑا! تو خود چل کر اس دروازے سے اندر آئی ہے ہم سے چدوانے کے لیے، اپنی مرضی سے! آئی ہے یا نہیں، بول؟ مادرچود!" یہ کہتے ہوئے سکندر نے میرے بال پکڑ کر میرے گال کی چمی لی۔
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔
"پھر اب کیوں انکار کر رہی ہے؟" اس نے میرے چوتڑوں پر ایک زوردار چپت لگائی اور بولا: تُو جا! میں بھی عاشی سے اپنے تعلقات توڑ دیتا ہوں۔ تجھے پتہ ہے عاشی پریگننٹ ہے؟ میرا بچہ ہے اس کے پیٹ میں! تیری مرضی ہے! تو چلی جا!" وہ بولے جا رہا تھا اور میری چوت، گانڈ، ممے، گال، جہاں اس کی مرضی ہو، مسلے جا رہا تھا۔
اس کی بات سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کی ہوا نکال دی ہو۔ میں نے ایک دم مزاحمت چھوڑ دی۔ سکندر نے مجھے گھٹنوں پر بیٹھنے کو کہا۔
میں بلا چوں چراں اس کے حکم کو مانتے ہوئے ان کے سامنے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں اپنے اپنے لنڈ میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگے، "لے انہیں چاٹ کتیا!" سکندر نے کہا، "کنجری، اپنا منہ کھول!"
میں نے اپنے منہ کو تھوڑا سا کھول دیا۔ سکندر نے اپنے لنڈ کو میرے منہ میں ڈال دیا، میرے سر کو پکڑ کر اپنے لنڈ کو اندر تک گھسا دیا۔ بہت ہی سخت گندی سی بدبو آئی، مجھے گھن سی آنے لگی۔
میں نے سنی کی جانب دیکھا تو معلوم ہوا کہ سنی کے ہاتھ میں سٹل کیمرا تھا۔ میں نے زبردستی سکندر کا لنڈ اپنے منہ سے نکالا اور اس کی منتیں کرنے لگی کہ پلیز میری تصویریں مت بناؤ، پلیز، جو تم کہو گے میں وہ کروں گی لیکن میری ایسی تصویریں مت بناؤ اور رونے لگی، میری منتوں کا سکندر پر الٹا اثر ہوا اور اس نے میرے گالوں پر تین چار کرارے تھپڑ رسید کر  دیے اور بولا: کنجری! چپ چاپ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتی رہ۔۔۔ منہ کھول حرامزادیا ور لوڑا چوس۔میں نے اس کے مزید تھپڑوں کے خوف سے روتے سسکتے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔
اب سکندر میرے منہ میں دھکا دھک اپنا لنڈ اندر باہر کر رہا تھا، وہ میرے بال پکڑ کر میرا منہ چود رہا تھا۔
کچھ دیر اس طرح میرے منہ کو چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا۔ اس کی جگہ سنی نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر وہی ہونے لگا جو پہلے ہو رہا تھا۔ میرے جبڑے درد کرنے لگے۔ زبان بھی کھردری ہو گئی تھی۔
"چل کمینی، اپنا منہ اور کھول اور ہم دونوں اپنا لنڈ ایک ساتھ ڈالیں گے۔"
میں سوچنے لگی کہ میرے منہ میں ایک ساتھ دو موسل جا سکتے ہیں کیا؟ دونوں اپنے اپنے لنڈ کو زور لگا رہے تھے اندر ڈالنے کے لیے!
سکندر نے میری چوت میں اپنے پیر کا انگوٹھا بھی پھنسا دیا تھا۔ سکندر نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا مگر سنی باہر گالوں پر ہی پھیرتا رہ گیا، اس کا لنڈ منہ کے اندر آدھا ہی جا کر رہ جاتا تھا، وہ اسے پورا اندر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
اب سکندر مجھے کھینچ کر بستر پر لے گیا اور وہ دونوں میرے سر کو کھینچ کر بیڈ کے کونے تک لے آئے۔ اس طرح کہ میرا سر بستر سے نیچے جھول رہا تھا۔ اب اس نے میرا سر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنا لنڈ اندر ڈالنا شروع کیا۔ اب لنڈ کو گلے کے اندر تک ڈال دیا، لنڈ پورا سما گیا تھا، اس کی جھانٹیں میرے نتھنوں میں گھس رہی تھیں، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔
"ارے سکندر، ایسے مت ٹھوک اسے! " سنی جو میری تصاویر لے رہا تھا، اس نے کہا۔
یہ سن کر سکندر نے اپنا لنڈ تھوڑا باہر کھینچا، پھر کچھ دیر تک میرے منہ میں اپنا تھوک ڈال ڈال کے میرے منہ کو چوت کی طرح چودنے کے بعد مجھے بستر پر چت لٹا دیا۔ اب وہ بھی بستر پر چڑھ گیا اور میری ٹانگیں پھیلا دیں۔ جتنا ہو سکتا تھا اتنا پھیلا کر ہاتھوں سے پکڑے رکھا۔
"ابے اب کے پاس آ کر کلوز اپ لے! ایک ایک حرکت کی تصویریں کھینچ! ابھی اس کی چوت سے خون بھی ٹپکے گا۔ سب کیمرے میں آنا چاہیے! " اس نے سنی کو کہا۔
سنی میری چوت کے ہونٹوں کے درمیان ملحقہ سکندر کے لنڈ کی تصویریں لینے لگا۔
سکندر اب دھیرے دھیرے میری چوت پر اپنے لنڈ کا دباؤ ڈالنے لگا۔۔۔ مگر اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ اندر ہی نہیں گھس پا رہا تھا۔ اس لنڈ سے نکلے پری کم سے اور کچھ میرے رس سے چوت کا چھید کافی ہموار ہو رہا تھا۔ وہ لنڈ پر دباؤ بھی بڑھاتا گیا مگر بار بار اس کا لنڈ پھسل جاتا تھا۔ "تیل لاؤں؟" سنی نے پوچھا۔
"ابے تیل لگانے سے تو آرام سے اندر چلا جائے گا۔ پھر کیا خاک مزہ آئے گا۔" اس بار اس نے اپنی انگلیوں سے میری چوت کے منہ کو پھیلا کر اپنے لنڈ کے ٹوپے کو وہاں لگایا اور اپنے جسم کا پورا وزن میرے اوپر ڈال دیا۔ اس کا لنڈ میری چوت کی دیواروں کو چھیلتا ہوا اندر گھسنے لگا اور میرے کنوارے پن کی جھلی پر جا کر ایک بار رک گیا۔
مجھے زور سے درد ہوا - اووووہ آآآآآہہہہ اوہہہہ ماں آ آآ آہہ مر گئی۔ اوہ نہیییں!
اگلے جھٹکے میں میرے کنوارے پن کو توڑتے ہوئے سکندر کا لنڈ پورا اندر گھس گیا۔ اگر چوت میں کوئی تیل لگایا ہوتا تو اتنا درد نہیں ہوتا لیکن مجھے درد سے چلاتے دیکھ کر اسے بہت مزا آ رہا تھا۔ اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ میری نازک چوت کی چمڑی اس کے لنڈ پر چپک سی گئی تھی۔
کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد جیسے ہی وہ اپنے لنڈ کو باہر کھینچنے لگا تو ایسا لگا کہ میری بچہ دانی بھی لنڈ کے ساتھ باہر آ جائے گی۔ اس نے اپنے لنڈ کو مکمل باہر نکالا اور میرے سامنے لے کر آیا۔ اس کے لنڈ پر میرے خون کے قطرے لگے ہوئے تھے۔ میری چوت سے خون رِس کر بستر پر ٹپک رہا تھا۔ "دیکھ مادرچود! تیری چوت کو آج پھاڑ ہی دیا نا۔ لے اسے چاٹ کر صاف کر کتیا! " میں نے گھن سے آنکھیں بند کر لی۔ مگر وہ ماننے والا تو تھا نہیں، اس نے میرے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور میں نے آنکھیں بند کیے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔ اس نے اپنا لنڈ جڑ تک میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر اس نے میرے منہ سے نکال کر دوبارہ اپنا لنڈ میری چوت میں گھسیڑ دیا اور تیز تیز دھکے مارنے لگا۔ اس کے ہر دھکے سے میری جان نکل رہی تھی۔ لیکن کچھ ہی دیر میں درد ختم ہو گیا اور مجھے بھی مزا آنے لگا۔ میں بھی نیچے سے اپنی کمر اچھالنے لگی۔ آدھے گھنٹے تک وہ اسی طرح بے دردی سے مجھے چودتا رہا۔ اس دوران میرا تین بار پانی جھڑ گیا تھا۔
اس کے بعد اس نے مجھے اٹھا کر اپنے اوپر بٹھا لیا، میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کرکے اس پر بیٹھ گئی۔ اس کا لنڈ پورا میری چوت کے اندر چلا گیا۔ اس کے سینے پر گھنے بال تھے جنہیں میں اپنے ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی کمر اوپر نیچے کر رہی تھی۔ میرے دونوں چوچیاں اوپر نیچے اچھل رہی تھیں۔
سنی سے برداشت نہیں ہوا، اس نے بستر پر کھڑے ہو کر میرے منہ میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ میں اس کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ اس طرح دونوں سے چدواتے ہوئے میں ایک بار پھر جھڑ گئی۔ سکندر میری چھاتیوں سے کھیل کر مجھے خوش کر رہا تھا۔ سنی اتنا وحشی تھا کہ اس کا لنڈ تھوڑی ہی دیر میں تن گیا اور ڈھیر ساری منی سے اس نے میرا منہ بھر دیا۔ مجھے گھن سی آ گئی۔ میں نے سارا پانی بستر پر ہی الٹ دیا۔
سنی اب گہری سانسیں لے رہا تھا مگر سکندر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس پوزیشن میں بھی وہ مجھے پندرہ منٹ تک چودتا رہا۔
"پلیز اب بس کرو، میں تھک گئی ہوں۔ اب مجھ سے اوپر نیچے نہیں ہوا جا رہا۔" میں نے اس سے منت کی۔
مگر وہ کچھ بھی نہیں بولا لیکن اگلے پانچ منٹ میں اس کا بدن سخت ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میرے چھاتیوں میں گڑ گئے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب زیادہ دیر کا مہمان نہیں ہے۔ اس نے میرے نپلز پکڑ کر اپنی طرف کھینچے، میں اس کے سینے پر لیٹ گئی۔ اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایسا لگا گویا ایک گرم دھار میرے اندر گر رہی ہو۔
اب ہم ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے ہوئے تھے، میرا پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ اے سی چل رہا تھا مگر اس کے باوجود بھی میں پسینے سے نہا گئی تھی۔
پہلی بار میں ہی اتنی زبردست چدائی نے میرے سارے اعضاء ڈھیلے کر دیے تھے۔۔۔ ایک ایک حصہ میرا دکھ رہا تھا۔ میں نے کسی طرح اٹھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس آدھا پیا اور آدھا اپنے چہرے پر ڈال لیا۔
تھوڑی دیر بعد سنی اٹھا اور مجھے ہاتھوں پیروں کے بل بستر پر جھکایا اور خود بستر کے نیچے کھڑے ہو کر میری چوت میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ وہ زور زور سے مجھے پیچھے کی طرف سے ٹھوکنے لگا۔ میرے چہرے کو پکڑ کر سکندر نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ پر دبا دیا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس کے ڈھیلے لنڈ کو اپنے زبان کو نکال کر چاٹنے لگی۔ میں پورے لنڈ کو اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سکندر کا لنڈ دھیرے دھیرے کھڑا ہونے لگا۔ اب وہ میرے بالوں سے مجھے پکڑ کر اپنے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگا۔ کافی دیر تک مجھے چودنے کے بعد سنی نے اپنا پانی چوت میں ڈال دیا۔۔۔
سکندر نے مجھے اٹھا کر زمین پر پیر چوڑا کر کے کھڑا کیا اور بستر کے کنارے بیٹھ کر مجھے اپنی گود میں دونوں طرف پیر کرکے بٹھا لیا۔ اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا۔ میں اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے جسم کو اس کے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگی۔ کچھ دیر تک اسی طرح چودنے کے بعد وہ ایک بار پھر میرے اندر فارغ ہو گیا۔ اس بار میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ جھڑ گئے۔
سنی نے کھانا منگوا لیا تھا۔ ہم اسی طرح ننگی حالت میں ڈنر کرتے ہوئے واپس بستر پر آ گئے۔ مجھ سے تو کچھ کھایا ہی نہیں گیا۔ سارا بدن لجلجا ہو رہا تھا۔ دونوں نے مجھے اب تک اپنا بدن صاف بھی نہیں کرنے دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد میں ان کا سہارا لے کر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ پورے بستر پر خون کے کچھ دھبے لگے ہوئے تھے۔ میں سنی کے کندھے کا سہارا لے کر باتھ روم میں گئی۔۔۔ لیکن وہاں بھی انہوں نے دروازہ بند نہیں کرنے دیا۔ سکندر میری گانڈ اور چوت سے کھیل رہا تھا، میں پیشاب کر رہی تھی اور تب بھی سکندر چوت میں انگلی آگے پیچھے کر رہا تھا، کاٹ رہا تھا میری گانڈ اور رانوں کو اور سنی تصویریں بنا رہا تھا!
میں ان دونوں کی موجودگی میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ واپس بستر پر آکر کچھ دیر تک دونوں میرے ایک ایک انگ سے کھیلتے رہے۔ میری اسی ننگی حالت میں مختلف پوز میں کئی تصویریں کھینچیں، پھر میری چدائی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ دور کافی دیر تک چلتا رہا۔ اس بار سنی نے مجھے اپنے اوپر بٹھایا اور اپنا لنڈ اندر ڈال دیا۔ اس حالت میں اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے چپکا لیا، میرے دونوں پیر گھٹنوں سے مڑے ہوئے تھے اس لیے میری گانڈ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔ سکندر نے میری چدتی ہوئی چوت میں ایک انگلی ڈال کر ہمارے رس کو باہر نکالا اور میری گانڈ پر لگا دیا۔ ایک انگلی سے میری گانڈ میں اندر تک اس رس کو لگانے لگا۔
میں اس کا مطلب سمجھ کر اٹھنا چاہتی تھی۔ مگر دونوں نے مجھے ہلنے بھی نہیں دیا۔ سکندر نے اپنی انگلی نکال کر میرے چوتڑوں کو اپنے ہاتھوں سے الگ کیا اور میری گانڈ کے سوراخ پر اپنا لنڈ لگا دیا اور آہستہ سے اپنا لنڈ اندر ھکیلا۔ ایسا لگا گویا کوئی میری گانڈ کو ڈنڈے سے پھاڑ رہا ہو، میں "آ آآ اایی ییی اوووووووووہ مممی مماااااااا اییایا بچااااااؤؤؤ" جیسی آوازیں نکالنے لگی۔ مگر اس کا لنڈ کے آگے کا موٹا حصہ اب اندر جا چکا تھا۔ میں نے درد سے اپنے ہونٹ کاٹ لیے مگر وہ آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مکمل اندر ڈالنے کے بعد ہی وہ رکا۔
پھر دونوں میرے چلانے کی پرواہ کیے بغیر ہی دھکے مارنے لگے۔ اوپر سے سکندر دھکا مارتا تو سنی کا لنڈ میری چوت میں گھس جاتا۔ جب سکندر اپنا لنڈ باہر نکالتا تو میں اس کے لنڈ کے ساتھ تھوڑا اوپر اٹھتی اور سنی کا لنڈ باہر کی طرف آ جاتا۔ اسی طرح مجھے کافی دیر تک دونوں نے چودا پھر ایک ساتھ دونوں نے میرے دونوں چھیدوں میں اپنا اپنا پانی ڈال دیا۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی جھڑ گئی۔
رات بھر کئی دور ہوئے مختلف پوز میں، میں تو گنتی ہی بھول گئی۔
تقریبا چار بجے کے قریب ہم ایک ہی بستر پر آپس میں لپٹ کر سو گئے۔