پیر، 25 اگست، 2014

میں ہوں ماریہ

ہیلو فرینڈز میرا نام ماریہ احمد ہے اور میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میں کراچی کی رہنے والی ہوں۔ میرے ابّو ریلوے میں کافی اچھی پوسٹ پر جاب کرتے ہیں۔ ابّو کی مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہوتی رہتی ہے اس لیے مجھے مختلف شہروں میں رہنا پڑتا ہے۔ میری امی کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ یہ میری پہلی کہانی ہے اگر آپ لوگوں نے میری کہانی کو پسند کیا تو میں اپنی چدائیوں کی اور کہانیاں بھی آپ لوگوں کو بتاؤں گی۔ اب آتی ہوں کہانی کی طرف۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے میٹرک کے پیپر ہونے والے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اپنی طبیعت خرابی کی وجہ سے ایک ہفتہ اسکول نہیں جا سکی۔ ایک ہفتہ بعد جب میں اسکول گئی تو مجھے میرے کلاس ٹیچر سر راشد نے بہت ڈانٹا اور کہا کہ پیپر قریب ہیں اور اب جو تمہاری پڑھائی کا حرج ہوا ہے تم اس کا کیا کرو گی۔ میں کہنے لگی سر پلیز آپ کچھ میری ہیلپ کریں تو سر نے کہا کہ تم سنڈے والے دن صبح 10 بجے میرے گھر آ جاؤ میں نے کچھ اور سٹوڈنٹس کو بھی بلایا ہے تو میں تم سب تو اپنے گھر میں پڑھا دوں گا تو میں راضی ہو گئی۔ سنڈے والے دن میں نے ابّو سے کہا کہ میں سر کے گھر پڑھنے جا رہی ہوں کیوں کہ پیپر قریب ہیں اور میری پڑھائی کا بھی کافی حرج ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی بکس اٹھائی اور سر راشد کے گھر آ گئی۔ سر کا فلیٹ ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔ سر کا فلیٹ آخری فلور میں سب سے کونے والا تھا۔ میں نے سر کے فلیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر بیل بجائی تو وہ بجی نہیں شاید وہ خراب تھی میں نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔ میں اندر آ کر سر کو آواز دینے لگی مگر سر کی طرف سے جواب نہیں آیا میں مختلف کمروں سے ہوتی ہوئی ان کے بیڈ روم میں آ گئی واش روم کا دروازہ بند تھا اور اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی ابھی مجھے کھڑے ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کے واش روم کا دروازہ کھلا اور سر تولیہ سے سر کو پوچھتے ہوئے کمرے میں آ گئے۔ میں سر کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی کیوں کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا ان کا 8 انچ لمبا اور 4 انچ موٹا لنڈ فل کھڑا ہوا تھا اور وہ سر کے چلنے کی وجہ سے بری طرح سے ہل رہا تھا۔ سر نے بھی مجھے دیکھ لیا اور انہوں نے جلدی سے اپنے گرد تولیہ لپیٹ لیا ان کے کھڑے لنڈ کی وجہ سے تولیہ صحیح سے نہیں لپٹا اور وہ کھل کر گر گیا تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور میں مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی اور ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئی۔ (گھر میں اکیلے ہونے کی وجہ سے میں سیکسی فلمز شوق سے دیکھتی تھی اور میرے دل میں بھی خواہش تھی کہ مجھے بھی کوئی چودے)۔ تھوڑی دیر بعد سر کمرے سے باہر آئے تو انہوں نے قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی۔ میں سر کو دیکھ کر مسکرا دی۔ سر میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔۔۔ مجھے مسکراتا ہوا دیکھ کر وہ کچھ ریلیکس ہو گئے تھے۔ میں نے پوچھا سر باقی کے سٹوڈنٹس کہاں ہیں؟ تو سر نے کہا کہ باقی کے سٹوڈنٹس نے آنے سے منع کر دیا تھا تو مجھے تمہیں بتانا یاد نہیں رہا۔ سر کی بات سن کر میں مسکرائی اور بولی یہ تو اچھا ہوا سر اب میں آ گئی ہوں تو آپ مجھے پڑھا دیں۔ سر نے کہا کہ پھر مجھے دوبارہ دوبارہ پڑھانا پڑے گا۔ میں کہنے لگی سر اب میں آ گئی ہوں تو کچھ پڑھ کر ہی جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں مسکرانے لگی۔۔۔ اب سر بھی میرا اشارہ سمجھ گئے تھے اور وہ میرے کچھ اور قریب ہو گئے اور بولے اگر میں تمہیں سیکس کے بارے میں پڑھاؤں تو کیا تم پڑھو گی؟ میں مسکرائی اور بولی سر اگر میں منع کر دوں تو کیا آپ مجھے نہیں پڑھائیں گے؟ میری بات سن کر سر مسکرائے اور بولے اگر تم نے منع کیا تو میں زبردستی تمہیں پڑھاؤں گا۔۔۔ میں ہنسی اور بولی تو زبردستی ہی مجھے پڑھا دیں سر، یہاں آپ کو کون روکنے والا ہے؟ میرا صاف اشارہ سن کر سر سے اب زیادہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیے۔ میرے تو دل کی خواہش پوری ہو رہی تھی اس لیے میں بھی ان سے لپٹ گئی سر بے تحاشا میرے ہونٹوں کو چوم رہے تھے اور میں مزے سے بے حال ہوئی جا رہی تھی۔۔۔ میں نے ان کے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال دیے تو سر نے مجھے زور سے بھینچ لیا تو میرے ممے ان کے سینے کے ساتھ لگ کر دب گئے۔ سر مجھے کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ میری کمر پر بھی ہاتھ پھیر رہے تھے مجھے پر تو نشہ طاری تھا اور میں نے خود کو پوری طرح سے سر کے حوالے کر دیا۔ کافی دیر تک انہوں نے مجھے کسنگ کی پھر انہوں نے مجھے الگ کیا اور میرے کپڑے اتارنے لگے۔ میں تھوڑی ہی دیر میں سر کے سامنے بالکل ننگی بیٹھی تھی۔ سر میرا بے داغ اور خوبصورت جسم دیکھ کر پاگل ہو گئے۔ اس عمر میں بھی میرے ممے کافی بڑے بڑے تھے، پتلی کمر، لمبے بال اور دودھ کی طرح چمکتا ہوا سفید رنگ۔ میرے جسم کو دیکھ کر سر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انہوں نے مجھے گود میں اٹھایا اور مجھے بیڈ روم میں لے آئے اور انہوں نے مجھے بستر پر لٹا دیا اور پھر وہ میرے جسم پر ٹوٹ پڑے اور بری طرح سے میرے مموں کو چومنے اور چاٹنے لگے۔ میرے منہ سے لذت آمیز آوازیں نکلنے لگیں افففف ااہھھہ ااہھھہ افففف سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز میرے مموں کا سارا دودھ پی جائیں ااہھھہ سر یہ آپ کے لیے ہی ہیں ااہھھہ سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔ میں ان کا سر اپنے مموں پر دبانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے میری مکھن جیسی چوت پر حملہ کر دیا۔ جب انہوں نے میری چوت کو چاٹنا شروع کیا تو میں اپنے آپ کو لذت کے آسمانوں پر اڑتا ہوا محسوس کرنے لگی پھر جب انہوں نے میری چوت پر کاٹا تو میں لذت سے تڑپ تڑپ گئی پھر اچانک ہی میری چوت میں زلزلہ آ گیا اور میں جھڑ گئی اور میری چوت میں سے نکلنے والے پانی کو سر نے مزے مزے سے چاٹ لیا۔ اب میری ہمت جواب دے گئی تھی اور میں بری طرح سے سسکتے ہوئے بولی پلیز سر میرے حال پر رحم کریں اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے پلیز مجھے چود کر میری پیاس بھجا دیں۔ سر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے کپڑے اتارتے ہوئے بولے پہلے میرے لنڈ کو تو تیار کرو ماریہ ڈارلنگ۔ میں بھی مسکرائی اور بولی سر اپنے ہی بیچارے کو قید کیا ہوا ہے۔ پھر سر نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے تو ان کا لمبا اور موٹا لنڈ میرے سامنے آ گیا۔ میں بے صبری سے اٹھی اور میں نے ان کے لنڈ کو پکڑ لیا میرے ہاتھ میں آنے سے ان کے لنڈ نے جھٹکا کھایا اور وہ کچھ اور پھول گیا۔ مجھے ان کا لنڈ بہت پسند آیا تھا اور میں نے اسے پیار سے چوم لیا پھر چاروں طرف سے ان کے پورے لنڈ پر کسنگ کرنے لگی پھر میں نے اسے اپنے منہ میں لیا اور اسے قلفی کی طرح چوسنے لگی۔ سر اپنے لنڈ کو میرے منہ میں آگے پیچھے کرنے لگے تو ان کا لنڈ میرے حلق تک جانے لگا تھوڑی دیر بعد ان کے جھٹکوں میں تیزی آ گئی 5 منٹ بعد ان کے لنڈ نے جھٹکا کھایا اور ان کے لنڈ سے گرم گرم منی کی پچکاری نکل کر میرے حلق سے ٹکرائی اور پھر میرا منہ ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے بھر گیا۔ میں نے سر کے کہنے کے مطابق ساری منی کو پی لیا اس کا ذائقہ کچھ نمکین تھا جو مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے ان کا لنڈ اچھی طرح سے چاٹ کر صاف کیا اور میں پھر سے ان کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ 5 منٹ بعد ہی ان کا لنڈ پہلے کی طرح تن کر کھڑا ہوگیا۔ پھر سر نے اپنا لنڈ میرے منہ سے نکال لیا اور مجھے بیڈ پر لیٹ جانے کو کہا۔ میں نیچے لیٹ گئی تو سر نے میری ٹانگیں موڑ کر میرے پیٹ سے لگا دیں اور پھر انہوں نے 2 تکیے اٹھا کر میرے چوتڑوں کے نیچے رکھے تو میری چوت بلند ہو کر ان کے سامنے آ گئی۔ پھر سر گھٹنوں کے بل بیٹھے اور انہوں نے اپنے لنڈ کی ٹوپی میری چوت پر رکھی اور بولے ماریہ تیار ہو جاؤ میں تمہاری چوت پھاڑنے لگا ہو تو میں نے کہا سر یہ آپ کی ملکیت ہے اب آپ جو چاہے اس کے ساتھ کریں۔ سر نے جھٹکا مارا تو بمشکل ان کے لنڈ کی ٹوپی میری چوت میں گئی میری چوت کا سوراخ بہت چھوٹا تھا سر نے کافی کوشش کی مگر وہ اندر نہ گیا تو انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے باہر نکال لیا پھر انہوں نے ایک کریم کی بوتل اٹھائی پھر انہوں نے کافی ساری کریم اپنے لنڈ پر لگی اور کافی ساری کریم میری چوت میں اندر تک لگا دی پھر انہوں نے دوبارہ سے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت کے سوراخ میں فٹ کیا اور پھر انہوں نے اپنی پوری طاقت سے دھکّا مارا تو ان کا لنڈ میری چوت کی دیواروں کو بری طرح سے چیرتا ہوا جڑ تک اندر گھس گیا۔ میرے حلق سے بہت بھیانک چیخ نکلی اور میں بری طرح سے تڑپنے لگی۔۔۔ سر نے لگا تار دس بارہ جھٹکے اور مارے ان کا ہر جھٹکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا اور میرے حلق سے پہلے سے زیادہ تیز چیخ بلند ہوتی۔ ان کا فلیٹ سب سے آخر میں تھا اس لیے انہوں نے میرے چیخنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔۔۔ وہ مسلسل جھٹکے مار رہے تھے۔۔۔ اب میں نے رونا شروع کر دیا میرے رونے پر ان کو اور جوش آیا اور وہ زیادہ تیزی کے ساتھ مجھے چودنے لگے۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے بولے کیوں ماریہ میری جان، درد ہو رہا ہے؟ میں نے اقرار میں سر ہلا دیا تو سر ہنسے اور بولے برداشت کرو میری جان برداشت کرو تمہی نے تو کہا تھا کہ یہ میری ملکیت ہے اور اب میں جو چاہوں اس کے ساتھ کروں۔ یہ کہہ کر وہ زوردار جھٹکوں کے ساتھ مجھے چودنے لگے، میرا درد تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور میں اب تک 4 مرتبہ جھڑ چکی تھی۔ سر کسی جانور کی طرح مجھے چود رہے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ میرا درد ختم ہونے لگا اور اب مجھے بھی مزا آنے لگا اور میں مزے میں سسکنے لگی افففف اہھھہ اووییی میں مر گئی افففف سر مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز اور تیز جھٹکے ماریے سر آج پھاڑ ڈالیں میری چوت کو افففف ااہھھہ اور زور سے سر اور زور سے۔ سر ہنستے ہوئے بولے جان من کیا اب درد نہیں ہو رہا کیا؟ میں سسکتے ہوئے بولی نہیں سر آپ کے ہوتے ہوئے مجھے درد کیسے ہو سکتا ہے آج آپ نے مجھے خرید لیا سر افففف اور زور سے مجھے چودیں۔ سر زور زور سے میری چدائی کرنے لگے۔ 45 منٹ تک مسلسل جھٹکے مارنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے باہر نکالا اور آ کر میرے منہ سے لگا دیا میں نے فوراً اپنا منہ کھول دیا اب سر میرے منہ کو چودنے لگے پھر سر جھڑ گئے اور ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے میرا منہ بھر گیا جسے میں نے مزے مزے سے پی لیا۔ سر تھک کر میرے اوپر گر گے۔ میں نے خوشی کے عالم میں انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا اور انھیں چومنے لگی۔ کافی دیر تک ہم دونوں اسی طرح لیٹے رہے پھر جب میں اٹھی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ میری چوت سے نکلنے والے خون سے لال ہو گئی تھی۔ میں کہنے لگی دیکھئے سر آپ نے کیسا خون خرابہ کیا ہے۔ سر نے مجھے لپٹا لیا اور بولے میری جان اس خون خرابے سے ہی تو مزا آیا ہے۔ میں مسکرائی اور بولی ہاں سر پہلے تو مجھے بہت تکلیف ہوئی مگر پھر اس سے بھی زیادہ مزا آیا اور اب میں یہ مزا دوبارہ لینا چاہتی ہوں۔ سر مسکرائے اور بولے کیوں نہیں میری جان مگر پہلے میں یہ مزا تمہاری گانڈ کو دوں گا اس کے بعد چوت کا نمبر آئے گا، کیا تم تیار ہو اپنی گانڈ مروانے کے لیے؟ میں مسکرائی اور بولی سر آپ نے مجھے اتنا مزا دیا ہے کے میں آپ کو منع کر ہی نہیں سکتی ویسے بھی اب میں آپ کی غلام ہوں، آپ جو چاہیں میرے ساتھ کریں میں بولنے والی کون ہوتی ہوں۔ میری بات سن کر سر نے مجھے چوم لیا اتنی دیر میں سر کا لنڈ پھر سے کھڑا ہوگیا تھا پھر میں سر کے کہنے پر ڈوگی سٹائل میں کھڑی ہوگی۔ سر میرے پیچھے آئے اور انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں فٹ کیا اور بولے ماریہ ڈارلنگ بہت درد ہو گا۔ میں مسکرائی اور بولی سر آپ اس کی پروا نہ کریں۔ اب آپ نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا لنڈ میری گانڈ میں گھسانا ہے۔ چاہے میں چیخوں یا چلّاؤں آپ میری پرواہ نہیں کریے گا۔ میری بات سن کر سر نے اپنی پوری طاقت سے جھٹکا مارا اور ان کا پورا کا پورا لنڈ میری گانڈ کو پھاڑتا ہوا اندر گھس گیا میں بہت زور سے چیخی اور درد کے مارے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ سر نے جب دوسرا جھٹکا مارا تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ سر بری طرح جھٹکے مار کر میری گانڈ مارنے لگے۔ میں بری طرح سے چیخ رہی تھی اور درد کے مارے اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی۔ سر نے میری حالت دیکھی تو کہا، ماریہ اگر درد بہت ہو رہا ہے تو میں آہستہ سے گانڈ ماروں؟ میں بمشکل بولی، اُووووووفففف نہیں سر آپ میرے چیخنے کی پرواہ نے کریں اور اپنی پوری طاقت لگا کر جھٹکے ماریں، ابھی آپ کا لنڈ میری گانڈ کے لیے نیا ہے تو درد ہو رہا ہے کچھ دیر بعد نہیں ہو گا۔ سر نے میری بات سنی اور بولے، اگر یہ بات ہے تو پھر برداشت کرو میرے زوردار جھٹکوں کو۔ یہ کہہ کر سر اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگے۔ ابھی سر کو گانڈ مارتے ہوئے 10 منٹ ہی ہوئے تھے کہ باہر کے دروازے کی بیل بجی۔ سر نے ایک گالی بکی اور کہنے لگے، اس وقت کون مادر چود اپنی ماں چدوانے آ گیا ہے بہن چود نے سارا مزا خراب کر دیا۔ اتنے میں بیل پھر بجی تو سر نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکالا اور ایک تولیہ اپنے گرد لپیٹا اور دروازہ کھولنے چلے گئے۔ جب کہ میں اسی طرح ننگی ڈوگی سٹائل میں پڑی رہی۔ کچھ دیر بعد جب سر ایک اور آدمی کے ساتھ اندر آئے تو میں گھبرا گئی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ آدمی بہت غور سے مجھے دیکھنے لگا۔ سر مجھ سے بولے ماریہ ڈارلنگ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میرا بہت اچھا دوست ہے کامران اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو یہ بھی میرے ساتھ مل کر تمہیں چود لے۔ میں مسکرائی اور بولی سر اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے آپ نے میری اتنی زبردست چدائی کر کے مجھے اپنا غلام بنا لیا ہے اور غلام اپنے مالک کو منع نہیں کر سکتا تو میں آپ کو کس طرح منع کر سکتی ہوں؟ کامران انکل آپ کے دوست ہیں تو میں ان کی بھی غلام ہوں اور آپ دونوں میرے آقا۔۔۔ اب آپ دونوں جس طرح چاہیں مجھے چودیں میں منع کرنے والی کون ہوتی ہوں۔ میری بات سن کر سر مسکرا دیے اور بولے ماریہ میری جان مجھے تمہاری بات سے بہت خوشی ہوئی ہے اور اب تم دیکھنا کہ ہم دونوں کس کس طرح تمہاری چدائی کرتے ہیں۔ پھر کامران انکل نے بھی اپنے کپڑے اتار دیے۔۔۔ کامران انکل کا لنڈ بھی 8 انچ لمبا اور 4 انچ موٹا تھا۔ میں سر راشد کے کہنے پر دوبارہ سے ڈوگی پوزیشن میں ہو گئی۔ پھر سر راشد واپس آ کر میری گانڈ مارنے لگے جب کہ کامران انکل نے آ کر اپنا لنڈ میرے منہ سے لگا دیا اور میں مزے سے کامران انکل کا لنڈ چوسنے لگی۔ سر راشد 40 منٹ تک میری گانڈ مارتے رہے پھر انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکال کر میرے منہ سے لگا دیا جس کو میں نے منہ میں لے لیا تھوڑی دیر میں ہی ان کے لنڈ سے منی کا فوارہ نکل پڑا اور میرا منہ ان کے لنڈ سے نکلنے والی منی سے بھرنے لگا جس کو میں مزے سے پینے لگی پھر میں نے ساری منی پی کر ان کا لنڈ چاٹ کر اچھی طرح صاف کیا۔ سر جآ کر صوفے پر بیٹھ گئے پھر کامران انکل نے ڈوگی سٹائل میں ہی اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور زور دار جھٹکوں سے میری چدائی کرنے لگے جب کہ میں مزے سے سسکیاں بھرنے لگی۔ افففف ااہھھہ اووییی افففف افففف افففف کامران انکل اور زور سے جھٹکے مارے ااہھھہ افففف مجھے بہت مزا آ رہا ہے پلیز اور زور سے جھٹکے ماریں اور زور سے اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مار کر میری چدائی کریں۔ میری باتوں سے کامران انکل کا جوش اور بڑھ گیا اور وہ اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگے انہوں نے 30 منٹ تک میری چوت ماری اور اس دوران میں 4 مرتبہ جھڑی پھر انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکال کر میری گانڈ میں ڈالا اور زوردار جھٹکوں سے میری گانڈ مارنے لگے۔ 25 منٹ تک میری گانڈ مارنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ سے نکال کر میری چوت میں ڈالا اور میری چوت کو چودنے لگے۔ پھر 35 منٹ تک میری چوت چودنے کے بعد انہوں نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا۔ کامران انکل ابھی تک نہیں جھڑے تھے جبکہ میری حالت بری ہوگئی تھی اور میں 22 مرتبہ جھڑ چکی تھی۔ سر راشد ہنستے ہوئے بولے ابے کامران گانڈو اب تو معاف کردے بچی کو تو نے تو اس کو چود چود کر اس کا کباڑا کر دیا ہے۔ میں سسکیاں بھرتے ہوئے بولی، نہیں سر: کامران انکل کو نہ روکیں مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔ کامران انکل بھی ہنسے اور بولے، جان من یہ تو شروعات ہے ابھی تم دیکھتی جاؤ میں کس کس طرح تمہاری چدائی کرتا ہوں۔ میں سسکیاں لے کر بولی، اُوووووووفففف کامران انکل تو آپ کو منع کس نے کیا ہے چودیں اور چودیں مجھے خوب چودیں چود چود کر میری چوت اور گانڈ کو پھاڑ ڈالیں۔ میری بات سن کر کامران انکل مسکرائے اور وہ اور تیزی سے جھٹکے مار کر مجھے چودنے لگے۔ کامران انکل نے تقریباً 50 منٹ تک اور میری چوت اور گانڈ ماری تب کہیں جآ کر وہ فارغ ہوئے۔ اس چدائی سے میرا جود جود حل گیا تھا اور میں لیٹ کر لمبی لمبی سنسے لینے لگی۔ 15 منٹ آرام کرنے کے بعد ان دونوں نے مجھے ایک ساتھ چودنے کا فیصلہ کیا۔ کامران انکل نے مجھے گود میں اٹھا کر اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا اور سر راشد نے پیچھے سے آ کر اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ جھٹکے مر کر مجھے چودنے لگے۔ انتے موٹے موٹے لنڈ ایک ساتھ میری چوت اور گانڈ میں جارہے تھے جس سے مجھے بہت زیادہ مزا مل رہا تھا اور ان دونوں کی جھٹکے مرنے کی رفتار اتنی تیز تھی کے میرے حلق سے نہ چاہتے ہوئے بھی چیخیں نکل رہی تھی۔ پھر شام 7 بجے تک ان دونوں نے چود چود کر میری چوت اور گانڈ کو سوجا دیا۔ ان دونوں نے دل کھول کر میری چدائی کی تھی۔ میری چوت اور گانڈ سوجھ کر پھول گیں تھی اور میں اتنی زبردست چدائی کے بعد سہی طرح سے چل بھی نہیں پرہی تھی۔ میں سر سے کہنے لگی، سر اب میں گھر کیسے جاؤں گی اور ابّو کو تو میری حالت دیکھ کر شک ہوجائے گا۔ سر راشد کہنے لگے، گھبراؤ نہیں میں تمہیں گھر چھوڑنے جاؤں گا اور میں سب سنبھال لوں گا۔ کامران انکل تو چلے گئے جب کہ سر راشد اپنی کار میں مجھے گھر چھوڑنے آئے۔ گھر پہنچے تو سر راشد کہنے لگے، ماریہ میں بہت شرمندہ ہوں کے ہم دونوں نے چود چود کر تمہارا یہ حال کردیا ہے۔ میں مسکرائی اور بولی سر آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے جو ہوا اچھا ہوا بلکہ تو مجھے تو بہت مزا آیا ہے۔ سر مسکرائے اور بولے جان من تم تو بہت خطرناک لڑکی ہو۔ پھر سر مجھے سہارا دے کر گیٹ تک لے اور دروازے کی بیل بجائی۔ ابّو نے میری یہ حالت دیکھی تو پوچھنے لگے کے کیا ہوا؟ سر راشد نے ابّو سے بہانہ بنایا کہ میں سیڑھیوں سے پھسل گئی تھی اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ سر راشد کی بات سن کر ابّو کو ذرا بھی شک نہ ہوا کہ ان کی بیٹی کیا گل کھلا کر آئی ہے۔


میری حالت بہت خراب تھی اس لیے میں 4 دنوں تک اسکول نہیں جا سکی۔ پانچویں دن جب میں اسکول پہنچی تو سر راشد مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ہاف ٹائم کے بعد میرا اسٹاف روم میں جانا ہوا تو وہاں صرف سر راشد تھے۔ سر نے مجھے پکڑ کر اپنے آپ سے لپٹا لیا اور مجھے چمٹے ہوئے بولے، ماریہ ڈارلنگ ابھی میرا تمہیں چود کر دل نہیں بھرا ہے میں اور تمہیں چودنا چاہتا ہوں۔ میں مسکرائی اور بولی، سر! آپ نے کامران انکل کے ساتھ مل جو کباڑا کیا تھا اس کا کیا؟ سر نے مجھے زور سے بھینچا اور بولے، تم خود تو کہ رہی تھی کے تم میری غلام ہو۔ میں مسکرائی اور بولی، نہیں سر میں تو مذاق کر رہی تھی بلکہ میں تو خود آپ سے اور کامران انکل سے اور چدوانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانی جاری رہے گی۔ آپ لوگوں کے کمنٹس اور ای میلز کا انتظار رہے گا۔